امریکہ: سیاہ فام شخص کی ہلاکت، سفید فام پولیس اہلکار پر اقدام قتل کا الزام عائد

واشنگٹن — امریکہ کے شہر منیاپولس میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے معاملے کو اقدام قتل قرار دے کر مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

واقعے میں پولیس افسر نے ایک افریقی امریکی شخص کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اسے ہتھ کڑیاں لگائیں۔ زیر حراست شخص بعدازاں دم توڑ گیا تھا۔

گرفتاری کے دوران وہ شخص سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کرتا رہا۔ پولیس اہلکار پر قتل اور اقدام قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ہنیپن کاؤنٹی کے اٹارنی، مائیک فریمین نے جمعے کے روز باضابطہ فرد جرم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس جرم ثابت کرنے کے لیے کافی شہادتیں موجود ہیں۔ فریمین نے فوری طور پر اس کی تفصیل بیان نہیں کی، لیکن کہا کہ جرم کا تفصیلی اعلان جلد ہوگا۔

چھیالیس سالہ، جارج فلائیڈ کے فوت ہونے کا اعلان اس وقت کیا گیا جب کچھ ہی دیر قبل پولیس افسر، ڈیریک شوون نے اس کی گردن پر اپنا گھٹںا رکھ دیا اور ہتھکڑی لگائی۔

اس سے قبل، جمعے کی شام وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک بڑا ہجوم جمع ہوا، جس نے جارج فلائیڈ کے حق میں نعرے بلند کیے اور انصاف طلب کیا۔

ادھر، کینٹکی کے شہر لوئیزول کے علاوہ کئی شہروں میں احتجاج ہوا اور ہنگامہ آرائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں؛ جب کہ ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں گزشتہ تین روز سے جاری احتجاجی مظاہرے جمعے کی صبح تک جاری رہے۔

اپنے ٹوئٹ میں، صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ”میں امریکہ کے ایک عظیم شہر، میناپولس میں یہ سب کچھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو کمزور، بائیں بازو کے قدامت پسند میئر، جیکب فرے شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے اقدام کریں یا پھر میں صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے نیشنل گارڈ روانہ کروں گا”۔

یہ مظاہرے ایک افریقی امریکی کے گرفتاری کے دوران پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ پولیس افسر جس نے زیرِ حراست جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا اور اس کے بار بار یہ کہنے پر بھی دباؤ کم نہیں کیا تھا کہ اسے سانس نہیں آرہا۔

گرفتاری کے بعد جارج کو ایک قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ اس کارروائی کی وڈیو سامنے آتے ہی امریکہ کے کئی شہروں میں احتجاج پھوٹ پڑے جس میں سب سے پر تشدد احتجاج منیاپولس میں پولیس کے پریسینکٹ 3 میں ہوا۔ لوگوں نے وہاں پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی، کئی سٹورز بھی آگ سے متاثر ہوئے اور بعض جگہ لوٹ مار بھی کی گئی۔

جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منی سوٹا کے گورنر ٹم والز نے لوگوں سے کہا کہ وہ پر امن ہو جائیں تاکہ انصاف کیا جا سکے۔ رات بھر کے پر تشدد مظاہروں کے بعد اب علاقے میں خاموشی تھی۔

گورنر والز کے خطاب کے کچھ ہی دیر بعد خبر آئی ہے کہ ڈیرک شووان نامی اس پولیس افسر کو گرفتار کرکے اس پر تھرڈ ڈگری مرڈر اینڈ مین سلاٹر جیسے قتل کے سنگین الزامات عائد کردئے گئے ہیں اور مزید الزامات بھی عائد کئے جا سکتے ہیں۔

امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام شہریوں میں کوئی امتیاز برتنا خلافِ قانون ہے مگر اکثر ایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں پولیس کے ہاتھوں افریقی امریکی کی موت پولیس کے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کے باعث ہوجاتی ہے۔

پولیس کے اختیارات اتنے وسیع ضرور ہوتے ہیں کہ اس کے افسر اکثر ان الزامات سے بری ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر طیب محمود سیئیٹل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی پولیس کو کسی حد میں رکھنا ناممکن ہے۔

ڈاکٹر طیب محمود کے مطابق، پولیس کی ایک تاریخ ہے۔ یورپ میں ماڈرن پولیس تب آئی جب صنعتی انقلاب آیا اور امریکہ میں پولیس بھاگ نکلنے والے غلاموں کو پکڑنے کیلئے وجود میں آئی۔ وہ کہتے ہیں امریکہ میں پولیس میں اقلیتی افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ڈاکٹر سہیل چیمہ نیویارک میں ماہرِ نفسیات اور دیگر امور پر وسیع نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ کی تاریخ میں نسلی امتیاز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسی ملک میں 1840ء سے 1845ء تک ایک خانہ جنگی ہوئی جو لوگوں کو غلام بنانے کے خلاف تھی اور اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔

آخر صدر ابراہم لنکن کو ملک سے غلامی کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا۔ اور یوں تاریخ کا یہ سیاہ باب لکھا گیا مگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ایسا کوئی واقعہ ضرور ہو جاتا ہےکہ جس سے نسلی امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ امتیاز انسان کی فطرت میں ہے۔ اسے پیدائیشی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ انسان میں معاشرتی طور پر آتا ہے۔

مینیاپولس میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے بارے میں ڈاکٹر چیمہ نے کہا کہ ایسے واقعات کا محرک بعض اوقات سیاسی بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں نومبر میں انتخابات ہو نے والے ہیں اس لئے سیاست کو اس طرح کے واقعات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ صدر ٹرمپ اس پوری صورتِ حال پر بات کرتے اور اشتعال ختم کرتے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

ڈاکٹر طیب محمود نے کہا کہ میناپولس کا یہ واقعہ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے اور افریقی امریکیوں کے خلاف پولیس کی ایسی کارروائیاں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔

قانون کے پروفیسر نے بتایا کہ قوانین موجود ہیں مگر ان کا اطلاق سرکاری محکموں اور پولیس پر ہمیشہ نہیں ہوتا۔ مگر ایسا ہر ملک میں ہوتا ہے اس لئے وہ اسے کوئی منفرد واقعہ نہیں سمجھتے۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ میں جیو ری سسٹم ہے اور جیوری کے سامنے اسے ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیوری سے اقلیتی نمائندوں کو کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے ہٹا دیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پولیس کے علاوہ بھی پیش آتے ہیں جیسا کہ نیویارک کی ایک عورت نے صرف اس وجہ سے پولیس بلا لی کہ اسے ایک سیاہ فام شخص نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے کتے کو زنجیر پہنا کے رکھے۔

امریکہ میں نسلی امتیاز کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگرچہ امریکی محکموں میں قانونی طور پر اس کی ممانعت ہے مگر معاشرتی طور پر اس امتیاز کا اظہار کبھی نہ کبھی ہو ہی جاتا ہے۔

ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ امریکہ جیسے ملک میں اگر نسلی امتیاز بڑھتا ہے تو یہ امتیاز دیگر کمیونیٹیز کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں کہا کہ امریکی خاص طور پر سفید فام امریکی بعض اوقات غیر ملکیوں کے بارے میں اچھا تاثر نہیں رکھتے ہیں اور اس کی وجہ معاشی ہے۔

دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ دارالحکومت اور اقتدار کے ایوانوں سے اگر اس طرح کے واقعات کی مذمت نہیں کی جاتی تو لوگوں کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہو گا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعہ کی سہ پہر وہائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں پریس کے سامنے ایک بیان دیا جس میں چین اور ہانگ کانگ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نئے اقدامات کا ذکر تھا مگر منیاپولس کے واقعات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے جارج فلائڈ پر الزام تھا کہ اس نے 20 ڈالر کے جعلی نوٹ کو کیش کروانے کی کوشش کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں