ڈر کے سائے تلے بے بس لوگ
تحریر: میر عامر بلوچ
رات
کچھ لوگ جو خاموش ہیں یہ سوچ رہے ہیں
سچ بولیں گے جب سچ کے ذرا دام بڑھیں گے
کچھ دنوں پہلے تربت میں ڈنک کے مقام پر چوروں اور ڈاکوؤں نے ایک گھر پر حملہ کر دیا تھا جس کی نیوز سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی تھی۔ تربت کے علاقے ڈنّک میں رات گئے گھر میں ڈکیتی کے دوران جب گھر والوں نے مزاحمت کی تو ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے خاتون کو شہید کر دیا جبکہ گھر میں موجود بچی(برمش)پر گولی چلا کر انہیں زخمی کر دیا۔ ان ڈکیتوں میں سے ایک ڈکیت موقع پر ہی پکڑا گیا باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جنہیں بعد میں پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ چونکہ تربت میں ڈکیتی کا یہ پہلا واردات نہیں اور نہ ہی یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے لیکن خاتون کی قتل اور بچی کی زخمی ہونے کی خبر نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔ اب اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ“جانتے سب ہیں لیکن کہتا کوئی نہیں ”یہ کون لوگ تھے،کیسے لوگ تھے، ان کے کام دھندے کیا ہیں، یہ کس کی ایماء پر کام کرتے ہیں، ان کو کس کی پُشت پنائی حاصل ہے۔
اس واردات کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں۔ تربت جیسا شہر جہاں کوئی عام بندہ اپنے گاڑی کے شیشے کالے کرکے گھوم نہیں سکتا وہاں دن کی روشنی میں کالے شیشے والی گاڑیاں جو مختلف جنگی ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہیں کھلے عام بازاروں میں گھومتے پھر رہے ہیں لیکن ہے کوئی جو ان سے پوچھے؟
کون ہیں یہ لوگ جو اتنے طاقتور ہیں؟ آیا کسی کی پُشت پنائی کے بغیر کوئی یہ سب کرسکتا ہے؟ اور پُشت پنائی ہے تو کس کی؟ کن اداروں کی؟
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
اب اگر کوئی سب کچھ جانتا ہے تو وہ اس خوفزدہ ماحول میں سچ کیسے بول سکے گا؟ کیا وہ سچ کہنے کے بعد محفوظ رہے گا؟ اس کی ذمہداری کوئی نہیں لے سکتا۔ کچھ ہیں جو سچ کہنا چاہتے ہیں لیکن چُپ ہیں، کہہ نہیں کہہ سکتے تو وہ اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہمارے لوگوں کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جہاں ہر ہفتے کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالی جاتی تھیں کیا اپنے لئیے ہم ایک احتجاج بھی نہیں کر سکتے، ایسی منافقت۔
آج اگر برمش بنا کچھ کیے ان ظالموں کا ظلم سہہ رہی ہے تو اسکے قصور وار بھی ہم ہیں۔برمش کو کیا پتہ جرم اور ظلم کی دنیا کا وہ تو ایک معصوم بچی ہے۔
اس ظلم کی دنیا کو ہم نے خود بنایا ہے اپنے خاموشی سے۔
کہتے ہیں کہ ظلم کرنا گناہ ہے لیکن ظلم سہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
برمش جیسی پھول سی بچی ہمارے خاموشی کے وجہ سے زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے۔
اگر ہم خاموش ہیں تو اسکا مطلب ہم پر سے کسی برمش پر ظلم کی داستان لکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
بس کریں ظلم سہنا اور دیکھنا
آواز بلند کریں
کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔
بلوچی غیرت و بلوچ کوڑ کا جنازہ تو بہت پہلے نکل چکا ہے لیکن کیا اس گھٹن زدہ، سماجی حوالے سے کرپٹ ماحول میں برمش کو انصاف مل سکے گا؟ کیا ہم برمش کو انصاف دلا سکیں گے؟ برمش جسے ابھی تک زندگی کے معنی ہی نہ پتا ہو انسانیت و سماج کے دشمنوں نے آج اسے کہاں کھڑا کر دیا۔ اب بھی وقت ہے ایسی ہر طاقت کے خلاف کھڑے ہونے کا لیکن شرط اتفاق و اتحاد ہے۔ برمش ہم سب کی بہن بیٹی ہے لیکن آج جو حالت برمش کی ہیں کل وہ ہمارے بھی ہوسکتے ہیں۔موجودہ حالات کو ان افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہر بلوچ بیٹی برمش اور ہر ماں برمش کی ماں ہوگی۔
حالات کا تدارک کرتے ہر ذیع شعور فرد پر ذمہ داری بنتی ہے کہ برمش کو انصاف دلانے کے لیے آگے آئیں۔ گھٹن اور خود ساختہ سوچ کو شکست دینے لئے اب ہمیں بحیثیت قوم اکھٹا ہونا ہوگا بصورت دیگر حالات اس ڈگر پر پہنچ جاہیں گے جہاں رہنا ناممکن ہو جاہے گا۔
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح