یو سف عزیز مگسی۔ 1908-1935

                      تحریر کا مریڈ فقیر 

میر یو سف عزیز مگسی کی پیدائش جنو ری 1908 ؁ء میں بلو چستان کے قصبہ جھل مگسی میں نو اب قیصر خان مگسی کے یہا ں ہو ئی۔آپ نے انپی ابتد ائی تعلیم کا ضی رسول بخش اور مولا نا عبد الکریم کے یہا ں حاصل کی جو عر بی، فا رسی اور اردو زبا نو ں میں تھی اور انگر یزی کی پڑھا ئی کھینا لال سے حاصل کیا۔ اس طر ح آپکی پڑھا ئی گھر یلو ما حول میں ہوئی۔ یو سف عزیز مگسی مذاجاً ایک ڈیمو کر یٹ، وطن دوست اور ذہین انسا ن تھے۔ مو صو ف شاعر ی کا زو ق بھی رکھتے تھے اور مضمو ن نگا ری بھی کر تے تھے۔ ان کی شا عری اور مضا مین کا عنوان بلو چستان ہو تا تھا۔ عزیز مگسی بلو چستان کے ایک ایسے مقام پر تھے جہا ں بیٹھ کر بیک وقت بلو چستان کے معر و ضی سیا سی، سما جی اور قبائلی حالا ت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انگر یزی استعما ر کے خلا ف ہند وستانی عوام کی چلنے والی تحریک پر بھی ان کی نظر تھی وہ ہندو ستا نی عوام کی ابھا ر کو قر یب سے دیکھنے اور اس تحریک سے سیکھنے ملتا ن چلے گئے مو صو ف ہند و ستان کی تحریک سے سخت متا ثر ہوئے۔ وہ اس با ت کو لے کر بے چھین تھے کہ کسی طر ح سے وہ بلو چستان کی آواز کو بلند کر یں۔ مگر ان کے پاس کوئی فو رم زریعہ نہیں تھا اس نے ایک مضمو ن کے زریعے اپنا مو قف فر یا د بلو چستان کے عنوان سے لا ہو ر سے شا ئع ہونے والے ہمد رد اخبا ر میں شا ئع کیا۔ اس مضمو ن میں وزیر اعظم سر شمس شا ہ کے سیا ہ کا ر نا مو ں، قبائلی عوام کے روایا ت اور مفا دات کے خلا ف ان کی پا لسیو ں کی مذمت کی اور عوام سے اپیل کی کہ وہ دنیا کے بد لتے حالا ت کے ساتھ اپنی سو چ میں تبدیلی لائیں۔ اپنے اسلا ف کا خون آپکے خو ن میں مو جو د ہے تواٹھئیے اور جاگئیے قومی اور سیا سی غلا می سے نجا ت کا ر استہ تلا ش کریں۔ آنے والی نسلو ں کے لئے مستقل راہ بن جائیں۔ فر وعی قبا ئلی ر نجشو ں کی بند ھنو ں کو تو ڑ کر جنگ آزا دی میں شامل ہو کر تا ر یخ رقم کریں۔ بذدلی، رجعت پسند انہ رحجا نا ت کو مٹا کر ما دو وطن کے لئے قر بانی کے تقا ضو ن کو اپنا ئیے اور بلا خو ف خطر قا بض قو نو ں کے لئیے چیلنج بن جائیں۔ اس مضمو ن کی اشا عت کی پا داشت میں انہیں گر فتا ر کر کے ایک سال کے لئے مستو نگ جیل میں رکھا گیا اس دو ران میر عبد العزیز کر د، میر عنقا کی قیا دت میں انہیں نئے سیا سی رفیق اور انجمن اتحا د بلو چستان کے نام سے ایک سیاسی پلیٹ فا رم اور اس کی رہنمائی کا مو قع مل گیا یو سف مگسی جب قید میں تھے تو میر عبد العزیز کر د اور تحیرک کے دیگر ساتھی انہیں ساسی لٹریچر اخبا ر ات پہچاتے تھے اور ان کی دیگر ضرور یا ت بھی پو ری کر تے تھے۔ اس دوران انجمن اتحا د بلو چستان کے نام سے ایک خفیہ نتظیم کی بنیا د رکھی گئی میر عزیز مگسی کو جماعت کا سر براہ اور میر عبد العزیز کر د کو جنرل سیکر یٹری بنا دیا اور با رہ افراد پر مشتمل تنظیم کی مجلس عا ملہ تشکیل دیا گیا۔ یو سف عزیز مگسی کی قیا دت میں بلوچستان میں جدید بلو چ قوم پر ستانہ سو چ کو پر وان چڑھا نے میں کا فی پیش رفت ہو ئی قوم پر ستی کے نام پر عوام کو یکجا کیا اور انہیں انگریز استعا ر کے قبضہ گیری کے خلا ف متحر ک کیا جو آگے چل کر تحریک کی شکل اختیا ر کر لی۔
سرشمس شاہ ریا ست قلا ت کے بے تا ج با د شا ہ بنے ہوئے تھے۔ ہر شعبہ زندگی میں لو ٹ ما ر مچی ہوئی تھی۔ ریا ستی سر دار وزیر اعظم شمس شاہ کے تا بع تھے شمس شاہ ریاست قلا ت میں انگریزی مفادات کو عملی جامہ پہنا رہے تھے شمس شاہ کے دور کو ریاست قلات کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے۔ریاست کے باشندوں پر ظلم وبربریت عروج پر تھا ہر سمت جبرا ستبدار کا دور تھا شمس شاہ نے یوسف عزیزمگسی کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے عزیز مگسی کی کوئٹہ میونسپلٹی کے حدود میں داخلے پر پابندی عاہدکردی۔یوسف عزیز مگسی نے تاریخی دستاویز شمس گردی کا اجراء کیا جس میں سر شمس شاہ کی تمام ظلم و ستم اور بدعنوانوں کا پردہ چاک کیا 28دسمبر 1932؁ء کو جیکب آبادکے مقام پر بلوچستان اینڈ انڈیا بلوچ کا نفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا اس کانفرنس میں سندھ،پنجاب،اور بلوچستان سے دوسو مند و بین نے شرکت کی مئی 1933؁ء کو یوسف نے بلوچستان کی آواز کے نام سے ایک پمفلٹ چھپوا کر لندن برطانوی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔عزیز مگسی نے عوامی مسائل اجاگر کرنے اور عوام تک شعور و آگہی کی رسائی کے لئے اخبار بلوچستان کے نام سے اخبار کا اجراء کیا پھر ان کی سر پر ستی میں کراچی سے البلوچ،بلوچستان جدید اور ینگ بلوچستان جاری کیا مگر حکومت وقت نے تمام جرائد پر یکے بعد دیگرے پابندی عاہد کردی۔1934؁ء کو بلوچستان کی تحریک آزادی کے سلسلے میں لندن چلے گئے جہاں ا نہوں نے بلوچستان کے حقوق کی آواز بلند کی انگستان سے واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔لندن سے واپسی پر وہ بلوچستان کی تحریک سے جڑے رہے 31مئی 1935؁ء کو ئٹہ میں ہونے والے زلزلے میں شہید ہوئے۔مرحوم یوسف عزیز مگسی کو ہم سے جدا ہوئے 85بر س بیت گئے۔85برس کا عرصہ قوموں کے عروج زوال کے تعین کرنے میں طویل عرصہ ہوتا ہے مگسی قبیلے کا شمار بلوچستان کے بڑے قبیلوں میں ہوتا ہے اس قبیلے نے اپنے بطن سے ڈاکٹر،انجینئر،لکھاری،کاروباری اور گریڈ 20کے آفیسرز تو پیدا کیئے۔مگر بلوچ قوم کو یوسف عزیز مگسی جیسا وطن دوست قوم دوست رہنمانہیں دے سکا۔جہاں تک مرحوم کے خاندان والوں کا تعلق ہے تو وہ بھی یوسف کو بھول گئے اپنے خاندان سے یوسف مگسی جیسا رہنما بلوچ عوام کو نہیں دے سکے وہ بلوچستان کے حکومتی ایوانوں میں بطور وزیر،وزیر اعلیٰ اور بطور گوانر کے تو سجتے رہے مگر یوسف عزیز مگسی کا نیم البدل پیدا نہیں کیا یہ مگسی قبیلے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں