زمری پلاسین

تحریر:زوراخ بزدار
بلوچستان کے شمال مشرقی ضلع موسی خیل کے شمال مشرق میں ایک علاقہ زمری پلاسین کے نام سے مشہور ہے زمری اس لئے کہ وہاں زمری قبیلے کے پٹھان رہتے ہیں اور پلاسین بقول انکے انگریزوں نے رکھا تھا اگر انگریزوں نے رکھا تو پلیس اور سین کا مرکب ہے نظاروں کی سرزمین اگر خود یہاں کے لوگوں نے رکھا تو پٹھانوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ بلوچ سرمائی موسم میں اسکو بطور سیرگاہ اور چراگاہ استعمال کرتے تھے شاید اس لیے انہوں نے اس کو زمری پلاسین کا نام دیا
چونکہ بلوچی میں پلاسی اون سے بنے کارپٹ کو کہتے ہیں جو کہ کافی نرم ہے اور خوبصورت نقش و نگار کی وجہ سے دیدہ زیب بھی ہیاور اس پہ خواص کو بٹھایا جاتا ہے یعنی زمری پلاسی پہ بیٹھے ہیں یا زمریوں کے سر زمین کا حسن پلاسی جیسا ہیپلاسی خیمے یا جھونپڑی کو بھی کہتے ہیں زمری پلاسین وہ علاقہ جہاں زمریوں کے خیمے ہیں یا جھونپڑیاں ہیں یہ علاقہ ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں تین صوبے آپس میں ملتے ہیں یہ علاقہ صوبہ بلوچستان کے تحصیل درگ ضلع موسی خیل کا حصہ ہے اسکے شمال اور مشرق میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کا علاقہ ہے اس کے جنوب اور مشرق میں تحصیل کوہ سلیمان ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ہے.یہاں کے بستیوں کے نام یہ ہیں
سخت راغہ
شنہ کچھ
سین مندوزء
غڑء ملیزء
مشخاجء
سپلء
خڑنوز
زندر
خزانہ بند
سی وی راغہ
زمینی رابطہ وہوا سے براستہ کوڑو درہ زمری پلاسی کو ایک کچی سڑک جاتی ہے جو ہر سال لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بناتے ہیں اور پھر برساتی بارشیں اسکا نام نشان مٹا دیتی ہیں دوسرا راستہ مغل کوٹ کا ہے جو یہاں سے چالیس کلومیٹر ہے وہ بھی کچا راستہ ہے اور اس سے بھی مشکل ہے ایک آدھ رات راستے میں گذارنے کے بعد یہ لوگ کسی شہری آبادی تک پہنچ پاتے ہیں آپ خود سوچیں زندگی کتنی مشکل ہوگی مگر اس علاقے کا حسن ان سب مشکلات کے باوجود ہر اس شخص کو وہاں جانے پہ مجبور کرتا ہے جو ایک بار وہاں گیا ہو یا اس نے پوری تفصیل سے زمری پلاسین کے متعلق سنا ہو
اس علاقے میں موبائل فورجی سروس فراہم کردی گء ہے جس سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو کچھ فائدہ ہوا یہاں کے مقامی لوگ اب باقی دنیا سے زمینی رابطے میں ہوں یا نہ ہوں مگر سیلولر نیٹورک کے رابطے بحال ہیں
زمری پلاسین اپنے آبشاروں مرغزاروں جنگلی حیات ٹھنڈے موسم کی وجہ سے کافی مشہور ہے سیاح زمری جاکر کیمپنگ کرتے ہیں یہاں ایک چشمہ ہے جس سے سرخ لال رنگ کا پانی نکلتا ہے پاکستان آئل اینڈ گیس کمپنی نے یہاں سروے کرکے نشاندہی کی ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں مگر کسے پڑی ہے کہ زمری جائے
یہاں زیتون کے درختوں کا ایک جنگل ہے جس کی لمبائی اور چوڑائی تقریباً تین چار کلومیٹر ہے یہاں کے پہاڑوں پہ سردیوں میں کافی سردی پڑتی ہے اور برف باری ہوتی ہے کوہ سلیمان کی ایک معروف چوٹی تِر پواد اسی زمری پلاسین کے جنوب مغرب میں ہے یہاں مارچ تک برف جمی رہتی ہے گرمیوں میں بھی یہاں کا موسم کافی سرد ہوتا ہے انسان رات کو بغیر کمبل کے نہیں سو سکتا اس علاقے میں خود رو پیاز مرچ اور دھنیا بھی ملتے ہیں چلغوزے کے درخت بھی ہیں یہاں کے زیتون کافی پھلدار ہیں مگر یہاں کے لوگوں کو ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ زیتوں کا تیل کتنا قیمتی ہے جب میں نے شیر علی زمری سے پوچھا تو کہہ رہے تھے کہ ہم زیتوں کا پھل اپنے بکریوں اور بھیڑوں کو کھلاتے ہیں تو وہ موٹے اور صحت مند ہوجاتے ہیں یہاں گرگول کے درخت کافی تعداد میں ہیں جن کا پھل کافی قیمتی ہے اور اسکا درفش (کیچپ) بنتا ہے جو سارا سال مکھن اور گھی کے ساتھ مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے اس علاقے میں درخت کاٹنے والوں سے یہاں کے سرکردہ لوگ باقاعدہ باز پرس کرتے ہیں کہ کونسی مجبوری تھی جو آپ نے درخت کاٹ کر علاقائی نقصان کیا
زراعت کا تصور چشموں کے باوجود معدوم ہے چونکہ یہ لوگ کہتے ہیں اگر ہم زراعت کا کام کریں تو پھر ہمیں گلہ بانی میں پریشانی ہوگی چونکہ یہاں کے لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور انہی کو پال کر منڈیوں میں بیچتے ہیں اور انہیں سے گزر بسر کرتے ہیں اس علاقے کے سفید گدھے باقی کوہ سلیمان کے گدھوں کی طرح کافی مہنگے داموں بکتے ہیں یہ جنگلی گدھے کافی طاقتور ہوتے ہیں یہاں کے لوگ بار برداری کے لیے اونٹوں کی بجائے انہیں ترجیح دیتے ہیں یہاں کے پہاڑی علاقوں میں مارخور اور ہرن بھی پائے جاتے ہیں پرندوں میں تیتر چکور اور سیسی یہاں کافی تعداد میں ہوتے ہیں یہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور امن پسند ہیں یہاں سڑک بجلی کوئی سہولت نہیں ہے زمری کو سب تحصیل کا درجہ حاصل ہے مگر ابھی تک زنانہ اور مردانہ ہائی سکول سے محروم ہے یہاں ہسپتال کے نام سے لوگ نا واقف ہیں یہاں کے باشندے شیر علی زمری انکے والد اور چچا سے جب میری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہاں اٹھانوے فیصد لوگ ان پڑھ ہیں پشتو کے بغیر انہیں دنیا کی کوئی زبان نہیں آتی ماسوائے چند پڑھے لکھوں کے جو اردو جانتے ہیں یہاں کے لوگ گوشت کے شوقین ہیں سردیوں میں ہر گھر میں پڑسند(گوشت کو خشک) کرکے پورے سیزن تک کھانے کا رواج موجود ہے پڑسند جسے پشتو میں لاندی کہتے ہیں یہ بلوچوں اور پٹھانوں کی من پسند ہے بلوچ اور پٹھان ہی جانتے ہیں کہ گوشت کو کس طرح preserve کیا جاتا ہے اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹر یک رسائی کے لیے یہاں کے لوگوں کو تقریباً دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے خورد و نوش کے سامان کے لئے بھی انہیں کافی محنت کرنی پڑتی ہے یہاں کے لوگ اب بھی صدیوں پرانے انداز میں گھر بنا کر رہتے ہیں ہر گھر کی چند جھونپڑیاں ہیں اور ایک جھونپڑی کو مسجد کا درجہ حاصل ہے اور ایک جھونپڑی کو مہمان خانہ کی حیثیت دی جاتی ہے سردیوں میں ان جھونپڑیوں کو آگ جلا کر گرم رکھا جاتا ہے کسی کے ہاں اگر مہمان آجائے تو سب لوگ کھانا کھانے کے بعد مہمان سے گپ شپ کے لئے پہنچ جاتے ہیں اس لئے مہمان کو اجنبیت کا احساس نہیں ہوتاکوہ سلیمان میں یہ شاید واحد علاقہ ہے یہاں کے لوگ اپنی تمام تر محرومیوں پسماندگی اور رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود بھی انتہائی مہذب ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں