کیا یہ درست ہو رہا ہے؟

اداریہ
کیا ہمارا موجودہ سیاسی منظر قابل رشک ہے؟گلی سے گزرتا ہوا کوئی شخص بھی اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا،بلکہ حیران ہوکر پوچھے گا آپ نے قابل رشک ہونے کا سوچا کیسے؟ یہ تو معمول سے بھی کہیں زیادہ پراگندہ ہیں۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب سے چھپتے پھر رہے ہیں ،نیب نہ جانے کا عذر پیش کرتے ہیں ’’میری عمر69سال ہے،میں کینسر کا مریض ہوںاور کورونا کا شکار ہوسکتا ہوں‘‘۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے ہی گھر سے نکلے یا نیب کے دفتر پہنچے کورونا کی زد میں آسکتے ہیں۔ان کی بیان کردہ وجوہات اپنی جگہ معقول ہیں اور انہیں رعایت ملنی چاہیے۔ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا منظور کر لی چنانچہ نیب انہیں 17جون تک گرفتار نہیں کر سکے گا البتہ انہیں نیب سے تعاون کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔نیب نے انہیں 9جون کو تمام ریکارڈ کے ساتھ طلب کر لیا ہے۔یہ مقدمات پرانے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ہی نیب عدالتوں میں سماعت کے لئے شریف فیملی نے پیشیاں بھگتنا شروع کر دی تھیں۔نواز شریف اور مریم نواز کو نیب عدالتوں سے سزائیں بھی سنائی گئیں۔چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اچانک متعدد پراسرار بیماریوں میں مبتلاء ہو گئے اورعدالت نے ان کی جان خطرے میں دیکھ کر غیر معمولی راستہ اختیار کیا اور شہباز شریف ضامن کی حیثیت سے اپنے بھائی کے ہمراہ لندن روانہ ہو گئے تھے۔پھر اچانک پاکستان واپس آگئے تاکہ اپنی مہارت اور ڈینگی کے خلاف کامیاب منصوبہ بندی جیسے تجربے کو بروئے کار لائیں اور عوام کو کورونا وائرس سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔مگر پاکستان پہنچتے ہی انہیں نیب نے طلب کر لیا اس غیر متوقع صورت حال سے بچنے کے لئے شہباز شریف کبھی قرنطینہ میںچلے جاتے ہیں اور کبھی مذکورہ بالا جواب نیب میں اپنے نمائندے کے ہاتھ بھجوا دیتے ہیں۔ اب معاملہ9جون تک ٹل گیا ہے۔
ہائی کورٹ میں کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر دیکھنے میں نہیں آئیں۔وکلا اور لیگی ورکرز کا ہجوم ان کے گرد جمع تھابعض ماسک سے بھی بے نیاز تھے۔سماجی فاصلے کا خیال رکھا جانا ضروری تھا۔قائد سے محبت اور والہانہ لگاؤاپنی جگہ مگر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ان کے قائد کی عمر69سال ہے اور وہ بدقسمتی سے کینسر کے بھی مریض ہیں۔لیکن اس موقعے پرورکرز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جسے دیکھ کر کوئی یہ سمجھ سکے یہ سیدھے بنی گالہ پہنچیں گے اور وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ لے کر ملک کو پی ٹی آئی کی حکومت سے نجات دلا دیں گے۔لیگی رہنماؤں کی یہ خواہش ہو سکتی ہے مگر اس خواہش کو ایک توانا تحریک بننے کے لئے کئی عوامل کا یکجا ہونا ضروری ہے۔لیڈر شپ ملک میں موجود ہو، عوام لیڈر شپ کی کال پر گھروں سے نکلنے کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو۔اٹک پل پر رات بھر آنسو گیس کا مقابلہ کرنے کے بعد اگلی شام اپنے ساتھ عام پلاسٹک کی بوتلوں کے ماسک ساتھ لانے کا جذبہ ہو،مسلم لیگ نون کو اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔پرانے بیانیے آج کارآمد ہوتے نظرنہیں آتے۔کوئی ایسا نعرہ لگایا جائے کس کی جاذبیت اور کشش، مہنگائی ،بیروزگاری ،کرونا اور ٹڈی دل جیسے مسائل کا حل دے سکے ۔آج ذوالفقاری علی بھٹوشہید جیسے ایک سیاسی مدبر کی ضرورت ہے جو عوام کی آنکھوں میں امید کی روشنی پیدا کرے۔جو چار جملوں میں عوام کو ترقی اور خوشحالی کی منزل دکھا سکا سکے۔آج دونوں جانب سے مرثیہ خوانی کی جارہی ہے۔ رونے دھونے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔دنیا کے دوسرے ملکوں نے جس طرح مشکلات کو زیر کیا ہے پاکستان بھی اسی طرح سوچے گا اسی طرح چلے گا تو اپنی مشکلات پر قابو پا لے گا۔مایوسی کی باتیں کرکے عوام میں ہمت نہیں پیدا کی جا سکتی۔ عوام کو حوصلہ نہیں دیا جا سکتا۔اپوزیشن کو حالات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔معروضی حالات کو سامنے رکھ کر نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ابھی سارے گلیشیئر نہیں پگھلے دریاؤں میں پانی آرہا ہے اس کو سمندر برد نہ کریں فصلیں اگائیں، نئی زندگی جنم لے سکتی ہے۔زرد چہروں پر سرخی چھا سکتی ہے۔
آئندہ سال کا بجٹ چند دنوں میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والا ہے۔اپوزیشن ملک اور قوم کی بہتری ترقی اور خوشحالی کے لئے قابل عمل تجاویز قومی اسمبلی اور عوام کے سامنے لائے۔یہ وقت خوابوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، آنکھیں کھولیں، گردوپیش کا بغور جائزہ لیںمشکل وقت میں قوم کی درست رہنمائی کا فرض ادا کیا جائے۔اپوزیشن جو کچھ کہہ رہی ہے یا جو کچھ کر رہی ہے اس میں عوامی مفاد کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ساری گفتگو ان کی ذات تک محدود ہے۔لیڈر شپ مصائب کا سامنا کرتی ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔نیلسن منڈیلا کا نام ایک روشن مینار کی طرح جدید تاریخ میں جگمگا رہا ہے۔ہماری اپوزیشن کا محبوب لیڈر ہے۔مشکلات سے گزر کر ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔بجٹ سازی میں بھرپور حصہ لیا جائے۔عوامی مسائل کا مناسب حل پیش کیا جائے۔ خالی لفاظی اور بے جان نعرے بازی کام نہیں آئے گی۔ عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کا دور ختم ہورہا ہے۔امریکی سیاہ فام بہادری سے لڑ رہے ہیں، لیکن اس کی قیادت کے لئے بہادر لیڈر شپ درکار ہے۔امریکی سیاہ فام نے اپنی قیادت اپنے اندر سے پیدا کر لی ہے۔پاکستانی عوام کو بھی اپنی قیادت اپنے اندر سے لانا ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں