ٹی ٹی پی پاکستان میں حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہی ہے، وزیر دفاع
اسلام آباد (آن لائن) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماوں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی اور اس آبادکاری کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام آبادکے کابل میں حکمران افغان رہنماوں سے اچھے تعلقات ہیں لیکن افغان حکام پاکستان پر حملوں میں اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے، کالعدم ٹی ٹی پی آج بھی پاکستان بالخصوص خیبرپختونخواپرحملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہی ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ افغانستان کے ایک ماہ پہلے دورے میں یہ معاملہ زیربحث آیا تھا اور افغان حکام نے اس مسئلے سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، افغان حکام کا کہنا تھا وہ اپنی زمین تخریب کاری کے لیے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، افغان حکام اورکالعدم ٹی ٹی پی فاصلہ چاہتے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں اشارہ دیتے رہے ہیں کہ وہ افغان حکام کے نظریاتی طور پر حامی ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماو¿ں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی اور اس آبادکاری کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماو¿ں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کے پاس امریکا کے افغانستان کے اندر چھوڑے ہوئے جدید آلات بھی موجود ہیں جبکہ بھارت افغان عبوری حکومت کی آج بھی مدد کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے عوام افغان حکام کے ساتھ ’ کو ایگزسٹ‘ کرنے کو تیار نہیں، بڑی قابل ذکر بات ہے کہ افغان حکام کی واپسی کیخلاف لوگ غیر مسلح احتجاج کررہے ہیں۔ افغان حکام اپنی کامیابیوں کو خواتین پر پابندیوں کے ذریعے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مو¿قف میں تبدیلی آتی رہتی ہے، ان کے حالیہ بیانات سے سمجھ نہیں آتی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے ہیں، یہ جو اسد قیصر اور دیگر لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں، یہ قومی ڈائیلاگ ہونے چاہئیں جس میں اسٹیبلشمنٹ بھی بیٹھے، میڈیا کی بھی نمائندگی ہو، سول سوسائٹی کے لوگ بھی ہوں،تبھی قومی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔


