یونانی کوسٹ گارڈز 3 گھنٹے تک لوگوں کو ڈوبتا دیکھتے رہے، تارکین کی کشتی جان بوجھ کر ڈبوئی گئی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)یونان کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نے کہا ہے کہ تارکین کی کشتی جان بوجھ کر ڈبوئی گئی، کوسٹ گارڈ نے جان کر ریسکیو نہیں کیا۔ایک ویڈیو پیغام میں یونان کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نے روداد سناتے ہوئے کہا کہ ارد گرد جہاز اور اوپر ہیلی کاپٹر گھومتے رہے لیکن کسی نے مدد نہ کی۔شامی پناہ گزین ایاد کا بھی کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز 3 گھنٹے تک لوگوں کو ڈوبتا دیکھتے رہے، خاموش کرانے کے لیے مار پیٹ کی۔ کشتی حادثے میں زیادہ جانی نقصان میں یونانی کوسٹ گارڈ کا کردار سامنے آگیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے یونانی کوسٹ گارڈ کا یہ دعویٰ غلط قرار دے دیا کہ ڈوبنے سے پہلے کشتی اٹلی کی جانب جا رہی تھی اور اسے ریسکیو کی ضرورت نہیں تھی۔میری ٹائم ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے 7 گھنٹے تک ایک ہی جگہ موجود رہی۔دنیا بھر کے صحافتی ادارے اور میڈیا نمائندے اس کشتی حادثے کی کوریج میں مصروف ہیں اور پل پل ایک نیا انکشاف ہو رہا ہے۔انہی صحافیوں میں سے ایک سکندر کرمانی بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں سے ایک سے بات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔سنکدر کرمانی ایک برطانوی صحافی ہیں جو برطانیہ کے چینل فور سے وابستہ ہیں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں بتایا، ’وہ فلمائے جانے کے حوالے سے بہت پریشان اور ڈرا ہوا تھا، لیکن اس نے اہم معلومات دیں۔‘سکندر نے اس شخص کے حوالے سے بتایا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے جو کچھ کہا وہ الگ، لیکن اُس (حادثے میں بچنے والے شخص) نے کہا کہ کوسٹ گارڈ کی جانب سے کشتی کو رسی سے باندھنے کی کوشش کے فوراً بعد کشتی الٹ گئی۔سکندر کے مطابق اس شخص نے یہ بھی کہا کہ جہاز میں تقریباً 750 افراد سوار تھے۔ جن میں سے تقریباً 400 پاکستانی، 200 مصری اور 150 شامی تھے۔اس شخص نے سکندر کو بتایا کہ (کشتی میں) ’دو درجن کے قریب شامی خواتین اور چھوٹے بچے بھی تھے‘۔مذکورہ شخص کے مطابق بچ جانے والوں میں سے زیادہ تر کشتی کے اوپر کی جانب تھے، جیسے وہ تھا۔سکندر کرمانی نے ایک نوجوان کی تصویر شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ساجد ہے، جو یونانی سمندر میں کشتی حادثے کے بعد لاپتہ ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے ایک ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس کے والد سے بات کی، جنہوں نے کہا، ’ہم نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا‘ اور یورپ پہنچنے کے لیے پرعزم تھا کیونکہ اسے لگا کہ پاکستان میں مواقع نہیں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں