کیچ و گوادر کے "آل پارٹیز اتحاد”کے نام کھلا خط

تحریر:ظفر عیسیٰ آزاد
دنیا میں جماعتیں عوام کے زور بازو پر بنتی اور اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہیں۔جب کسی جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو ان کا سرچشمہ و منبع عوام ہی ہوتے ہیں۔کیونکہ عوام کے بغیر چند رہنماؤں کے وجود سے جماعتیں جماعت نہیں انجمن کہلاتی ہیں۔جماعت بننے کے پہلے ہی جز اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ کیسے عوام کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔عوامی مسائل کے حل کے نعروں کے ساتھ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ان جماعتوں کے کرتا دھرتا عوام کے درمیان ہر وقت موجود رہ کے اپنی اپنائیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ کوء بھی عوامی جینوئن مسلۂ صرف ایک زات پر نہیں بلکہ قوم کا مسلۂ سمجھ کے ان جماعتوں کے سربراہان اور ممبرز ان مسئلوں کو اون کرتے ہیں۔مسلۂ حل ہو یا نہ۔ لیکن عوام کو جب احساس ہونے لگے کہ اس جماعت نے کم از کم جائز مسلئے کے حل کیلئے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے تو عوام کا اعتماد بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔عوامی اعتماد کے ساتھ جب جماعتیں آگے بڑھ جاتی ہیں تو دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے ناممکنات بھی ممکن ہوسکے ہیں۔عوام کے دلوں پر راج اس وقت کیا جاسکتا ہے جب سیاسی جماعتیں عوام کا اعتماد و بھروسہ حاصل کرسکیں۔اپنے بنیادی مسائل کے حل کیلئے عوام کا اعتماد اور عوام کو موبالائز کرنا سیاسی جماعتوں کی روزافزوں توانا پرورش کا باعث بنتی ہیں۔
عوام کی شرکت سے کسی بھی مسلئے کو سرکارِ وقت کے سامنے اٹھانا توانا آواز قرار پاتی ہے۔ اقتدار کے ایوان تب لرز اٹھتے ہیں۔تمہید کے بعد اب آتے ہیں مکران کی طرف۔
مکران میں تقریبا 20 کے قریب مرکزی۔صوبائی اور علاقائی سطح کی جماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔”مکران” کے دو بڑے شہروں میں ان جماعتوں نے عوامی مسائل کے حل کیلئے "آل پارٹیز اتحاد” کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیاگیا ہے جو خوش آئند ہے۔ ان جماعتوں کی طرف سے اس اتحاد کو امید کی کرن بھی قرار دیا جاتا ہے۔
ان جماعتوں میں بڑے بڑے سیاسی رہنما موجود ہیں۔جن کی پہچان عوامی لیڈر کی حیثیت سے گردانا جاتا ہے۔اور واقعی ان میں اتنی قوت موجود ہوتا ہے کہ وہ عوامی طاقت کو اپنی جانب راغب کرسکیں۔ان جماعتوں میں قوم پرست۔ مذہبی و سیکولر جماعتیں بھی شامل ہیں۔مکران مسائل کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔مکران میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن میں سرفہرست تعلیم،سڑک،آب،بجلی اور بدامنی اور منشیات کی وبا ئجو اوسطاً ہر پانچ گھرانوں کے نوجوانوں میں بڑی تیزی سے سراہیت کرتی جا رہیہے ا س کے علاوہ بہت دوسری ذیلی مشکلات یہاں کے عوام کو کئی دہائیوں سے درپیش ہیں۔
ان مسائل کے حل کیلئے ان جماعتوں کے رہنما وقتا فوقتا عوام کے درمیان آتے رہے ہیں۔اور ان مسائل کے حل کیلئے حکومت سے التجائیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن!!!سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ کیوں نہیں جب یہ جماعتیں عوامی مسائل کے حل کے نعروں کے ساتھ یکجا ہوئے ہیں؟عوام ان جماعتوں کو اپنا اپنا مفاد پرست ٹولہ کیوں گردانتی ہے؟؟
"آل پارٹیز اتحاد” کے بقول(کوئی شک نہیں) جب یہ عوام کیلئے اپنی اپنی جماعتوں کی مفاد سے بالاتر ہوکے عوامی مسائل کے حل کیلئے یکجا ہوئے ہیں تب یہ عوام ان کو خاص بیک اپ یا سپورٹ کیوں نہیں کررہی؟؟یہیں سے عوامی اعتماد کا فقدان نظر آنے لگتا ہے۔سوال یہ ابھر رہا ہے کہ عام آدمی ان جماعتوں پر اعتماد کیوں نہیں کر رہا؟حالانکہ ان یکجا جماعتوں کا خوشنما سلوگن ہی عوامی مسائل کا حل کرنا ہے۔اس سلوگن کو عوام میں خوب پزیرائی ملتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔عوام ان جماعتوں کے شانہ بشانہ کیوں نہیں کھڑا ہو رہا؟
کیا ان جماعتوں نے اپنا اعتبار کھودیا ہے؟کیا آل پارٹیز اتحاد کی صفوں میں ایسے فرد و افراد تو موجود نہیں جنہوں نے عوامی مفادات کو زک پہنچائی ہو؟کیا آپ کی "آل پارٹیز اتحاد” میں ایسے رہنما تو نہیں جنہیں عوام قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔جنہیں عوام مفاد پرست ٹولہ سمجھتا ہو؟کیا مکران کے دو بڑے شہروں (گوادر۔کیچ) کے "آل پارٹیز اتحاد”میں شامل سیاسی و مذہبی جماعتوں نے عوامی مفادات کا کبھی سودا کیا ہے؟
"گوادر” اور "کیچ”میں علیحدہ علیحدمذہبی و سیاسی جماعتیں مقامی مسائل اور عوامی مفاد کیلئے "آل پارٹیز اتحاد”کے نام سے عرصے سے یکجا ہوئیہیں۔کبھی آپ نے "آل پارٹیز اتحاد” کے زیر سایہ جلسوں کی جھلک دیکھی ہے کہ عوام کی کتنی تعداد آپ کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتی ہے؟کبھی جینوئن ایشوز پہ عوام کو اپنی پشت پر پائے ہیں؟؟
تازہ مثال گوادر کی لے لیں۔گوادر میں پچھلے 4,5 دنوں سے بجلی کے حوالے سے "آل پارٹیز اتحاد” کے رہنما ملا موسی موڑ پر دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔صبح سے شام تک اس دھکتی دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہِیں۔لیکن!!ان 10 سے زائد جماعتوں کے کارکن ہاتھ کی انگلیوں سے گنے جاسکتے ہیں۔ایسا کیوں؟یہی جماعتیں صرف اپنی اپنی پارٹی کے 50 یا 100 کارکن موبالائیز کیوں نہیں کر پارہے ہیں؟؟گوادر میں بجلی۔پانی بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔ان کا براہ راست اثر عوام کی زندگیوں پر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ کہ عوام پھر بھی اس دھرنے میں شریک نہیں۔
کیچ و گوادر کے”آل پارٹیز اتحاد” کو اس بارے میں حددرجہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کہ کیسے عوام کا اعتماد بحال کریں۔کیسے عوام کو موبالائز کرکے ان مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کیجانب راغب کرسکیں۔
وسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں