اختر مینگل کی نئی آزمائش
انور ساجدی
جولائی 2018ء کے انجینئرڈانتخابات کے نتیجے میں جو حکومت قائم کی گئی اسکی ساخت اگرچہ سیاسی ہے لیکن اسکی بائنڈنگ فورس سیاسی نہیں ہے یہ ماضی جیسا تجربہ تھا جیسے کہ1990ء اور1997ء میں نوازشریف کو برسراقتدار لایا گیا دونوں مرتبہ نوازشریف کو برطرف کردیا گیا جبکہ تیسری مرتبہ انہیں مجرم قراردے کر جیل بھیج دیا گیا نوازشریف کے بعد کوئی چوائس نہیں تھا اس لئے نگاہ انتخاب تحریک انصاف پر ٹھہری عمران خان کو معلوم تھا کہ اسکے حدود وقیود کیا ہیں؟اسکے باوجود انہوں نے حکومت سازی کے وقت تین جماعتوں مسلم لیگ ق بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم سے تحریری معاہدے کئے اختر مینگل سے معاہدہ انکے6نکات کی بنیاد پر کیا گیا جو انہوں نے چند سال قبل ترتیب دیئے تھے انہوں نے یہ نکات چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے سامنے بھی پیش کئے تھے جنہوں نے ان نکات کو آئین کے دائرے کار کے اندر قراردے کر سردار صاحب کو بادی انظر میں محب وطن پاکستانی قراردیا تھا۔
اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں سردارصاحب نے کہا کہ پاکستانی پرچم کو سیلوٹ کرنے کو حب الوطنی کاپیمانہ قراردیاگیاہے حالانکہ تمام لٹیرے ڈیتھ اسکواڈ اور پارٹیاں بدلنے والے سیلوٹ کی آڑ میں ہر طرح کی جرائم کے ارتکاب کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ پرچم کی یہ صحیح حرمت نہیں ہے۔
بہرحال تحریک انصاف نے اختر مینگل سے جومعاہدہ کیا سردارصاحب دوسال تک اس حکومت کے ساتھ چلے حتیٰ کہ انہوں نے آرمی ایکٹ کو بھی سپورٹ کیا لیکن اسکے باوجود عمران خان انکے مطالبات منظور کرنے کی طرف پیش رفت نہیں کرسکے بظاہر تو یہ سیاسی بے وفائی اور اتحادیوں کے ساتھ حکمران جماعت کی بے اعتنائی ہے لیکن عمران خان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں انہیں اپنے دائرہ اختیار کااچھی طرح پتہ ہے اسی لئے انہوں نے ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی چنانچہ آخر کار سردارصاحب نے قومی اسمبلی کے اندر اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا اس اقدام کو میڈیا نے بہت کوریج دی اور یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان کے کسی سیاسی لیڈر کے پولیٹیکل ایکٹ کواتنی تشہیر ملی سردار صاحب نے متعدد ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیا اور اپنے فیصلہ کی وضاحت کی لیکن انہوں نے ایک اہم بات یہ کی اگر حکومت انکے مطالبات منظور کرے تو ہم کیا پورا بلوچستان تحریک انصاف میں شامل ہوجائے گا یہ ایک طرح سے زومعنی بات ہے انہیں واضح طور پر کہنا چاہئے تھا کہ ان کا فیصلہ دوٹوک اٹل اور حتمی ہے انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ بجٹ کی منظوری کے وقت ووٹ دیں گے کہ نہیں حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد انہوں نے اپوزیشن کے سرکردہ لیڈر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی تھی انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ آگے جاکر اپوزیشن کو سپورٹ کرسکتے ہیں اسی رات آصف علی زرداری نے سردارصاحب کو فون کیا اور انہیں دعوت دی کہ حکومت گرانے میں وہ ہم سے تعاون کریں زرداری کے فون کے بعد کئی سازشی تھیوریوں نے جنم لیا یہاں تک کہا گیا کہ اخترمینگل کی جہانگیر ترین سے انڈراسٹینڈنگ ہے چنانچہ جہانگیر ترین لندن میں بیٹھ کر حکومت گرانے اور عمران خان کو سبق سکھانے کیلئے جو تانے بانے بن رہے ہیں یہ فیصلہ اسی کا شاخسانہ ہے۔
لیکن جو لوگ اخترمینگل کوجانتے ہیں وہ ان سازشی تھیوریوں کونہیں مانتے کیونکہ1997ء سے ابتک اخترمینگل نے بہت کچھ سیکھا ہے وہ پارلیمانی سیاست کے اسرار ورموز سے مکمل طور پر آشنا ہوچکے ہیں وہ سیاست کے داؤ پیج اپنے لئے تو لڑسکتے ہیں دوسروں کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے البتہ جب وہ وقت آجائے کہ حالات حکومت گرانے کیلئے موافق ہوں تو ایک پارلیمانی پارٹی کے طور پر وہ ضرور اپنا کردارادا کریں گے۔
حکومت کی طرف سے سردارصاحب کو منانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں ان کا نتیجہ تو معلوم نہیں کیونکہ پارلیمانی سیاست کے اہداف اوراصول مختلف ہوتے ہیں اور ہمیشہ لڑائی اور صلح کے امکانات موجود ہوتے ہیں لیکن اخترمینگل کیلئے حالات اس طرح ہیں کہ
میں سطح آب پرآؤں تو کس طرح آؤں
انا کا بوجھ بڑے پانیوں میں لے آیا
جہاں تک مجموعی صورتحال کا تعلق ہے تو راولپنڈی میں بڑے اہم فیصلے ہوئے ہیں کرونا اور ٹڈی سے نمٹنے کیلئے اقدامات اپنے ہاتھوں میں لے لئے گئے ہیں اس حکومت نے شروع دن سے سی پیک کو سست روی کا شکار کردیا تھا اس اہم منصوبے کو بھی خود سنبھال لیا گیا ہے بلوچستان اگرچہ سابقہ ادوار سے براہ راست کنٹرول میں تھا لیکن صوبائی حکومت کی صلاحیتوں کو دیکھ کر براہ راست اقدامات کا فیصلہ کرلیا گیا ہے،نئے انتظامات میں شہبازشریف اور دیگر قومی رہنماؤں کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے لیکن ان رہنماؤں میں سردار اختر اور اسفندیارولی شامل نہیں ہیں۔پی ٹی ایم کو آخری موقع دے کر بات چیت کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس سے کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی۔
نئے فیصلوں کے مطابق18ویں ترمیم کی خامیوں کو ہرحال میں درست کیاجائے گا اور این ایف سی کی ازسرنوتشکیل کی جائے گی حکام بالا کاخیال ہے کہ جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے آرمی ایکٹ کی مل کر منظوری دی وہ اسی طرح 18ویں ترمیم میں تبدیلیوں کی منظوری بھی دیں گے بجٹ کی منظوری کے بعد اس سلسلے میں درپردہ رابطوں کا آغاز کردیاجائیگا اگرزرداری نہ مانے تو سندھ میں ہر قیمت پر تبدیلی لائی جائے گی اور انکے خلاف پہلے سے قائم مقدمات میں تیزی لائی جائے گی بلاول کیخلاف بھی ایسے اقدامات کئے جائیں گے کہ وہ سیاست میں اہم رول ادا نہ کرسکیں۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں بھارت جو دخل اندازی کررہا ہے مقامی لوگوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا خاتمہ کردیاجائیگا ساحلی پٹی پر ہنگامی بنیادوں پر متعدد منصوبوں کا آغاز کیاجائیگا۔
روزنامہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق سینیٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی نے جب گوادر پورٹ کے معاہدے کی تفصیلات طلب کیں تو اس میں شریک افسران نے کہا کہ یہ معاہدہ خفیہ ہے اور ہم اسکی تفصیلات نہیں بتاسکتے یہ سن کر تمام سینئردم بخود رہ گئے یعنی گوادر پورٹ کے معاہدے کو پارلیمنٹ سے بھی مخفی رکھا جارہا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ساحل وسائل کی کیا پوزیشن ہے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اس معاہدہ کے بارے میں میرحاصل خان سے پوچھا جائے جو اس وقت پورٹ اینڈ شپنگ کے وزیر تھے میراخیال ہے کہ میرصاحب کو بھی یہ معاہدہ نہیں دکھایا گیا ہوگا اگریہ بات سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میرحاصل خان اورمحمود خان اچکزئی کو انکے پسندیدہ لیڈر میاں نوازشریف نے بھی دھوکہ دیا حالانکہ عمران خان کے دھرنے کے وقت ایک رہنمانوازشریف کے دائیں اور ایک بائیں کھڑے ہوتے تھے
نئی صورتحال میں اختر مینگل کیلئے بہت بڑے چیلنج کھڑے نظرآتے ہیں کیونکہ مسنگ پرسنز کے مسئلہ کو حل کرنا کسی بھی سیاسی حکومت کے بس میں نہیں ہے اس ضمن میں گزشتہ حکومت کے وکلا سپریم کورٹ کو بتاچکے ہیں کہ جو لسٹ فراہم کی گئی ہے وہ جعلی ہے ان میں سے بیشتر لوگ بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ بعض روپوش ہیں سپریم کورٹ نے بھی مزید زور نہیں دیا تھا اسی طرح افغان مہاجرین کا مسئلہ ہے اختر مینگل سے معاہدہ کے باوجود عمران خان نے حکم دیا کہ تمام افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کئے جائیں یہ مہاجرین مرکزی حکومت کے اہم ہتھیار ہیں اور وہ انہیں کھونا نہیں چاہتی گوادر کے بارے میں کوئی مطالبہ قابل قبول نہیں لہٰذا حکومت سے نکلنے کے بعد اخترمینگل کو ایک بڑی آزمائش کا سامناکرناپرے گا۔
خدا ملا نہ وصال صنم
کے مصداق انہیں بلوچستان کے حقوق اور ساحل ووسائل کے تحفظ کیلئے ایک بڑی جدوجہد شروع کرنا پڑے گی جس کے مابعداثرات بہت خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭