بلوچستان میں خواتین کی سیاست میں شراکت داری

تحریر: سید میروائس خان

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تقریباً ساڑھے دس کروڑ ہے۔ جن میں مرد ووٹرز 5.8 کروڑ سے زائد اور خواتین ووٹرز 4.5 کروڑ سے زائد ہیں بلوچستان میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4299499 ہے جس میں خواتین کی تعداد 1813264 ہے جو کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 17۔42 بنتی ہے بلوچستان میں 27 فیصد خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں۔

بلوچستان میں سیاسی شعور کافی زیادہ ہے لیکن دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو خواتین کی سیاست میں شراکت داری کافی کم ہی دیکھنے ملی ہے اور الیکشن میں ٹرن آوٹ کم رہتا ہے۔
بلوچستان صوبائی اسمبلی کے کل نشستوں کی تعداد 65 ہے جس میں سے 51 نشستوں پر الیکشن لڑا جاتا ہے اور 3 نشستیں اقلیتی برادری جبکہ 11 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں۔
اگر دیکھا جائے خواتین صرف مخصوص نشستوں تک ہی محدود رہتی ہیں اکثر و پیشتر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں عام انتخابات کے لئے ٹکٹ بہت ہی کم دیا جاتا ہے جس سے خواتین کی سیاست میں شراکت داری کم ہوجاتی ہے۔
دوسری جانب اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی بن بھی جاتی ہیں تو انہیں وزارت ملنے کا امکان کم ہی رہتا ہے اس وقت بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک خاتون رکن اسمبلی کابینہ کی رکن ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے نمائدوں سے کہے کہ ہر نمائندہ اپنے کارکنوں اور حلقہ کے لوگوں کو خواتین کے قومی شناختی کارڈ بنانے اور ووٹ کا اندراج کرنے کے ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنے پہ آمادہ کریں تاکہ سیاست میں خواتین کی مظبوط شراکت داری کو ممکن بنایا جا سکے۔
عام انتخابات 2018ء میں کُل 171 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا، اس میں سے 105 خواتین کو پارٹیوں نے ٹکٹ دیا اور 66 نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ خواتین کو ٹکٹ جاری کرنے میں پیپلز پارٹی سرفہرست رہی جس نے 19 خواتین کو عام نشستوں پر پارٹی ٹکٹ دیئے۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کا نمبر آتا ہے جس نے 14 خواتین کو ٹکٹ دیئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 11، 11 خواتین کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے۔

اگر پاکستان میں عام انتخابات کی حالیہ تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اور آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے سیاست میں خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے قبل 2008ء کے انتخابات میں کُل 72 خواتین نے حصہ لیا تھا، جن میں سے 41 خواتین کو پارٹیوں نے ٹکٹ جاری کیے جبکہ 31 نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ بعدازاں 2013ء کے عام انتخابات میں خواتین اُمیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور کُل 135 خواتین اُمیدواروں میں سے 61 کو سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ دیئے جبکہ 74 خواتین نے آزاد اُمیدوار کے طور پر الیکشن لڑا یہ خواتین کو سیاسی حقوق دینے اور نہ صرف سیاست بلکہ فیصلہ سازی میں اُن کا کردار بڑھانے کی طرف مسلسل پیش قدمی کا ثبوت ہے۔

ہر سیاسی جماعت کو چاہئے کہ وہ جرنل نشستوں کے لئے مذید خواتین کو ٹکٹ جاری کریں تاکہ خواتین مخصوص نشستوں کے علاوہ بھی اسمبلی کی رکن بن سکیں اور یوں اسمبلی کے اندر انکی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔

اسمبلی کے اندر خواتین کو کابینہ کا حصہ بنا کر وزارتیں دی جائیں تاکہ اسمبلی کے اندر انکا فعال کردار ہو اور یوں خواتین صوبے کی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں گی تاہم اسی سلسلے ترقی پسند سیاسی جماعتیں قانون سازی کرسکتی ہیں جو کہ صوبے کی سیاست پر کافی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
کسی جمہوری معاشرے میں ایسی کسی روش کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جانا چاہیے کہ خواتین کو جمہوری عمل سے دور رکھا جائے۔م وہ تمام حلقے، جو کثیر جماعتی جمہوریت کے تصور پر یقین رکھتے ہیں، اور جنہوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کو مستحکم بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے، انہیں خواتین کو آگے کرنا چاہیے۔

ترقی کے نقطہ نظر سے خواتین کے ووٹ دینے پر پابندی لگانا اور انہیں مقامی فیصلہ سازی کے عمل میں فعال انداز میں حصہ لینے سے روکنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے درجنوں ممالک کے تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ خواتین کو سیاست میں بامعنی شمولیت سے محروم کر کے ترقی کے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی خواتین شہریوں کو مکمل طور پر برابر حیثیت دیے بغیر اپنی بھرپور استعداد کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔

ایس ڈی جیز ان ترقیاتی مقاصد کے تحت اپنے طے شدہ اہداف کے حصول میں سب سے زیادہ پیشرفت وہی ملک دکھا رہے ہیں، جہاں مقامی حکومتوں کے فعال نظام قائم ہیں، جو بالخصوص خواتین کی شمولیت پر مبنی ترقی پر زور دیتے ہیں۔ پیشرفت وہیں ہو رہی ہے جہاں ہر طرح کے مقامی کردار مل کر کام کرتے ہوئے مقامی حالات کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں، اور مقامی سیاق و سباق کے بارے میں اپنے اجتماعی علم کو استعمال کرتے ہوئے مقامی مسائل کے مقامی حل تلاش کر رہے ہیں۔ خواتین کو اس عمل سے خارج کرنے سے ایک اہم عنصر غیر حاضر رہ جاتا ہے۔

یاد رہے خواتین کو ساتھ لیکر چلے بنا کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا تمام سماجی کارکنوں سیاسی جماعتوں اور دیگر پڑھے لکھے نوجوانوں کو چاہئے کہ خواتین کی سیاست مظبوط شرکت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے تب ہی جا کر ملک کی جمہوریت مظبوط ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں