کون بنے گا وزیراعلیٰ بلوچستان؟

تحریر: بشیر احمد ہزارہ
بلوچستان صوبائی اسمبلی کی تمام 51 نشستوں کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق نتائج سامنے آگئے ہیں۔ جن کے مطابق بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان مسلم لیگ ن لیڈ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جنہوں نے بلا ترتیب گیارہ گیارہ اور 10 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر جماعتوں نے بھی نشستیں حاصل کیں۔ جن میں آزاد امیدوار کی تعداد 6، بلوچستان عوامی پارٹی 4، نیشنل پارٹی 3، عوامی نیشنل پارٹی 2 نشستوں پر کامیاب ہے، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جماعت اسلامی، حق دو تحریک بلوچستان نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ تو ممکن نہیں رہا کہ صوبے میں کسی ایک جماعت کی حکومت قائم ہو تا ہم اب سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک مخلوط حکومت قائم ہونی ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں اور مذکراتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن صوبہ کے ماضی اور موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر تین بڑی جماعتوں اور پرانے اتحادیوں میں جنگ چھڑتی نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی ملاقات اہم بات ثابت ہوسکتی ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن کے گیارہ ارکان بھی کافی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ جب تک یہ تین بڑی جماعتیں آپس میں نہیں بیٹھتیں اور متفق نہیں ہوتیں کسی ایک نام پر اتفاق ہوتا نظر نہیں آرہا۔ لیکن اگر یہ تینوں جماعتیں مرکز میں ایک ساتھ بیٹھ جاتی ہیں تو بلوچستان میں بھی انکا ایک ساتھ بیٹھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ ویسے وزارت اعلیٰ کے نئے امیدواروں کے نام زیر گردش ہیں لیکن حتمی فیصلہ ان ملاقاتوں میں ہی ہوگا۔ وزیراعلیٰ کے لیے مضبوط نام فی الحال سرفراز بگٹی کا سامنے آرہا ہے جو کہ پی پی پی کے لیے اہم ہے، انہیں نگران وزیر داخلہ بھی بنایا جاچکا تھا۔ تاہم سرفراز بگٹی نے وزیراعلیٰ بلوچستان بننے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔ اب دیگر ناموں کی طرف دیکھا جائے تو جام کمال، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسلم رئیسانی بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ انکے علاوہ سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی ان چار نشستوں کے ساتھ جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ پی پی پی انہیں نامزد کرے، اس مرتبہ انتخابات کے نتائج نے سابق اتحادیوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کردیا جہاں سے نیشنل پارٹی کو شکست ہوئی وہاں پی پی پی جیتی جہاں پختونخوا ہاری وہاں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی جیسے نواز شریف محمود اچکزئی کے برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچا۔
اسی نا اتفاقی، غیر یقینی صورتحال کی بنا پر لوگوں کی نظریں اسلام آباد کی طرف ہیں کیونکہ بلوچستان کے فیصلے وہیں ہوتے آئے ہیں، ایک دوسرا فارمولا یہ بھی ہے کہ مرکز میں سپورٹ کے لیے فضل الرحمان وزارت اعلیٰ بلوچستان کی سیٹ مانگ لیں لیکن ان کے پاس امیدوار ایک ہی ہے کیونکہ عموماً بلوچستان کا وزیراعلیٰ بلوچ ہی ہوتا ہے اس لیے ان کے پاس مضبوط امیدوار اسلم رئیسانی ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی سیٹ بھی خطرے میں نظر آتی ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق پی پی پی ری کاﺅنٹنگ میں ان کے خلاف گئی ہوئی ہے۔ تا ہم قوی امکان ہے کہ اسلم رئیسانی، جام کمال اور سرفراز بگٹی ان تینوں میں سے ہی کوئی ایک وزیر اعلیٰ بنے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں