الحمد للہ

تحریر: علیشبا بگٹی
"الحمد للہ قرآن پاک کا بسم اللہ کے بعد سب سے پہلا لفظ ہے۔ اس سے قرآن مجید اور سورة الفاتحہ شروع ہوتی ہے ، جس کے معنی "سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں”۔
دنیا میں جانداروں کی لاکھوں قسمیں ہیں، تقریباً 8000 زبانیں اور 4000 سے زیادہ مذاہب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان مسلمان اور آخری نبی حضرت محمد کے امتی سے بنایا۔ دین اسلام کی نعمت سے نوازا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو عربی زبان میں اتارا۔ اس میں یہ معجزہ رکھا کہ دنیا کی کسی زبان کسی جگہ کا کوئی بھی مسلمان اِسکو نہ صرف باآسانی پڑھ سکتا ہے بلکہ کوئی بچہ بھی حفظ کر سکتا ہے اور زبانی خوبصورت قرا¿ ت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ ہر زبان میں اسکا ترجمہ اور تفسیر بھی موجود ہے۔ یہ احکام خدا وندی کے مطابق زندگی گزرنے کا مکمل منشور ہے۔
قرآن پاک نہ صرف وضاحت سے کائنات کے خالق کا تعارف کراتا ہے بلکہ ا±س کے احکامات کے مطابق دنیا میں زندگی گزارنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔ طریقہ بھی بتاتا ہے اور جنت میں جانے کا راستہ بھی بتاتا ہے۔ یعنی اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ بھی سکھاتا ہے۔
اس کے علاوہ زندگی سانسیں تندرستی، عقل سلیم، علم دولت، اولاد جیسی تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا۔ اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق کے بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔
دیکھا جائے تو انسانی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پر ہے۔ ہم دن میں رب تعالیٰ کی کتنی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، ہمارے دستر خوان مختلف کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہمیں پیاس لگے تو ٹھنڈا پانی حاضر ہوتا ہے۔ ہمیں بھوک لگے تو ہر قسم کا کھانا موجود ہوتا ہے۔کہیں جانا ہو تو سواری مل جاتی ہے۔ سونا ہو تو نرم و گداز بستر میسر آجاتا ہے۔ رب تعالیٰ نے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے دیے ہیں۔ رہنے کے لیے عالی شان گھر دیا ہے۔غرض ہر طرح کی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا۔ یہ رحمتیں اور نعمتیں محدود نہیں ، لا محدود ہیں۔ ہم ان نعمتوں اور رحمتوں کو شمار بھی نہیں کر سکتے۔ اگر یہ نعمتیں اور رحمتیں ایک لمحے کے لیے روک دی جائیں تو شاید ہمارا جینا محال ہو جائے۔
فطرتِ سلیمہ اور عقلِ صحیحہ دونوں کے امتزاج سے جو چیز حاصل ہوتی ہے اس کا نام ”حکمت“ ہے، لہٰذا حکمت کا لازمی تقاضا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔
لیکن ہم میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ان نعمتوں اور رحمتوں کے بدلے میں ایک کلمہ ِ شکر بھی ادا نہیں کرتے۔ نادانستہ طور پر زبان سے شکر کے کلمات نکل جائیں تو نکل جائیں۔ لیکن دانستہ طور پر ایسا نہیں کرتے۔ رب تعالیٰ کے بہت ہی کم بندے ایسے ہیں ، جو ہر لمحہ رب تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں پر زبان ِ حال وقال سے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔
کتنے ایسے لوگ ہیں، جنہیں بیشمار نعمتیں میسر ہیں۔ مگر وہ منعم حقیقی کو پہچاننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس وہ خوش نصیب بھی ہیں، جو نان شبینہ پر گزارا کرتے اور جھونپڑے میں رہتے ہیں، لیکن اس پر بھی ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ انھیں اگرچہ دنیا کی دولت نہیں ملی لیکن اس دولت کا مل جانا ان کے لیے دنیا و عقبیٰ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
اہل دل تو عجیب بات کہتے ہیں کہ اللہ کی بےحد و بیشمار نعمتوں کو دیکھ کر اور خود اپنی ذات کو اس کی نعمتوں سے گرانبار پا کر تو شکر اور حمد کا جذبہ ابھرتا ہی ہے۔ لیکن خود یہ بات کہ آدمی اللہ کی تعریف کرنے لگے اور اس میں اسے ایک سکون اور اطمینان محسوس ہو، یہ نعمت تو ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔ جس کسی کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اسے اس دولت کے مل جانے پر بیش از بیش اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔تو جس کو اتنی بڑی دولت مل جائے، اس پر اتنا ہی بڑا شکر ادا کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ کیا خوب کہا کسی شاعر نے۔
میری طلب بھی انہی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں
عام طور پر "الحمد للہ کسی نعمت کے ملنے پر اظہار شکر کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ اَلحَمد± لِلّٰہِ کا مطلب ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔
حمد کے معنی ہیں کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر ا±س کی تعریف کرنا اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاءسے ا±س کی تعظیم کرنا اور ہم چونکہ اللہ تعالیٰ کی حمد عام طور پر ا±س کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد” شکر“ بھی ہوتی ہے۔
ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی مظہرِ حسن ہے‘ مظہرِکمال ہے‘ مظہرِ جمال ہے ا±ن کے متعلق ہماری عقل صحیحہ یہ رہنمائی کرتی ہے۔ کہ ان تمام محاسن و کمالات کا منبع اور سرچشمہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے. لہذا اصل تعریف اور ثناءان اشیاءکی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی ہوتی ہے۔
کیونکہ کائنات کی ہر نعمت‘ ہر چیز‘ ہر حسن‘ ہر جمال اور ہر کمال ‘الغرض کوئی بھی وصف کسی کا ذاتی نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا ودیعت کردہ ہے، جیسے تصویر میں اگر کوئی حسن ہے تو وہ درحقیقت مصور کے کمالِ فن کی عکاسی ہے، تصویر کا اپنا کوئی حسن نہیں‘ نہ اس کا کوئی اپنا ذاتی کمال ہے۔
انسانی ذہن مخلوقات میں قدرت کا شاہکار ہے لیکن وہ بہرحال مخلوق اور محدود ہے۔ محدود میں غیر محدود کبھی نہیں سما سکتا۔ اکبر مرحوم نے خوب کہا:
جو ذہن میں گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
"الحمد للہ کلمہ ِ شکر ہے۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے۔ "الحمد للہ کے معنی سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں یعنی دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ اس جہان رنگ و بو میں جہان ہزاروں حسین مناظر اور لاکھوں دل کش نظارے اور ہزاروں نفع بخش چیزیں انسان کے دامن دل کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور اپنی تعریف پر مجبور کرتی ہیں اگر ذرا نظر کو گہرا کیا جائے تو ان سب چیزوں کے پردے میں ایک ہی دست قدرت کار فرما نظر آتا ہے اور دنیا میں جہان کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں جیسے کسی نقش و نگار یا تصویر کی یا کسی صنعت کی تعریف کی جائے کہ یہ سب تعریفیں درحقیقت نقاش اور مصور کی یاصنّاع کی ہوتی ہیں۔
دنیا میں اگر کوئی خوبصورت ہے کوئی طاقتور ہے کوئی صاحب علم ہے کوئی صاحب مال ہے کوئی صاحب اقتدار ہے کوئی صاحب اولاد ہے مطلب کسی میں کوئی خوبی ہے سب اللہ کی تخلیق اللہ کی عطا ہے۔کیونکہ کمال کہیں بھی ہو جمال کسی روپ میں ہو اسی اللہ کی کرشمہ سازی ہے اصل اسی کی مرضی اس کی قدرت اختیار و منشا ہے اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق ہے وہی اس کا مالک ہے وہی سب کی پرورش کرنے والا ہے۔
قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ بنیادی ہدایت ہر انسان کے دل میں موجود ہے اللہ کی کتابیں اور قرآن مجید اس لیے نازل ہوئیں تاکہ خوابیدہ شعور کو ایکٹیویٹ اور بیدار کرسکیں پھر اسے اجاگر کرتی ہیں ہر عقل سلیم از خود اس حقیقت اور نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور انسان کی زندگی صرف یہ زندگی نہیں بلکہ ایک اور زندگی بھی ہے کہ جس میں اس زندگی کے اعمال کے نتائج برآمد ہونگے۔
یہ کلمہ "الحمد للہ اتنا عظیم اور اعلیٰ مرتبت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ یہ کلمہ آسمان و زمین کو اپنی برکات سے بھر دیتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتاہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت ہے، کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) الحمد للہ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔
حضرت عمرنے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔
ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ یہ اللہ کی چادر ہے۔
ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العلمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا۔
جلال الدین رومی نے کہا کہ "الحمد للہ، خوشی کی شرائط کا آغاز ، خوشیوں کی اساس ، اور شکر کی ابتدائی دعا ہے۔
"الحمد للہ” کا مطلب ہے "خدا کا شکر ہے” یا "خدا کا حمد و ثنا ہے”۔ یہ ایک ادبی اظہار ہے جو خدا کی حمد و ثنا کی اظہار کرتا ہے اور انسان کی شکر گزاری اور خوشی کو ظاہر کرتا ہے۔الحمد للہ ایک بہت ہی مفید اور سکون بخش اظہار ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے کہ انسان خدا کی نعمتوں اور فضل کا شکر ادا کرے۔ اس اظہار کی بنا پر انسان کا دل پرسکونی اور خوشی سے بھر جاتا ہے۔الحمد للہ کا اہمیتی مظاہرہ اسلامی دین میں بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود بھی خدا کا شکر ادا کرے۔اس کے ذریعے انسان اپنے ایمانی اور روحانیتی اصولوں کو مضبوط بناتا ہے۔.
الحمد للہ خوشیوں کی سحر ، ہر امتحان کے بعد کامیابی و ہر راہ کا راز ، ہر زندگی کا ہمراز ، خدا کا فضل ، ہر دعا کا عوض ، زندگی کا مقصد، انعاموں کا سلسلہ ، رحمتوں کا سفر ، ہر زخم ، ہر دکھ کے بعد شفا کا سنگ ہے،
"الحمد للہ، زندگی کی سب سے خوبصورت دعا ، زندگی کے ہر مسئلہ کا حل ، زندگی کی ہر سانس کا شکریہ ، زندگی کے ہر لمحہ کا شکر ، زندگی کی ہر لحظے کا بہترین تھپکی ، ، زندگی کی ہر غم کا انجام ، زندگی کی ہر آسانی کا سہارا ، خدا کی رحمتوں کا ذریعہ ، خدا کی رضا، کامیابی کا راز، دل کی قرارگاہ کا حکمران، دل کے دریا کا انعام، دعاﺅں کی قوت، مشکلات کو دور کرنے والی طاقت ہے۔”
اگر انسان اللہ تعالیٰ کی غیر متناہی نعمتوں کو یاد کریں۔ وہ بے شمار نعمتیں جنہوں نے ہمارے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔تو بے اختیار پروردگار عالم کا شکر دل سے نکلتا ہے۔
اسی لئے "الحمد للہ اس کی نعمتوں اور احسانات کا اقرار بھی ہے۔ دعوی بھی ہے اور دلیل بھی یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، "الحمد للہ شکر بھی ہے، شکریہ بھی،
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا آغاز ہی "الحمد للہ سے ہوتا ہے، نبی نے فرمایا”سب سے بہتر دعا "الحمد للہ ہے” حدیث ہے اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالٰی تمام دنیا دے دے اور وہ "الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں