کوئٹہ یا کوڑا کرکٹ

تحریر: علیشبا بگٹی
اس مشہور حدیث سے کون واقف نہیں کہ ”صفائی نصف ایمان ہے“ لیکن یہ بات صرف ہماری ذات تک محدود ہے کیونکہ ہم خود کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں، مگر گھر گلی محلے اور شہر کی صفائی کا احساس و خیال نہیں کرتے ہیں۔اگر گھر کی صفائی کرتے بھی ہیں تو گھر کا کچرا گھر کے سامنے گلی میں پھینک دیتے ہیں۔اپنے گھر کے آس پاس گندگی پھیلانے سے اس لئے گریز کرنا چاہے کیونکہ سارا محلہ اگر گندگی سے اٹا ہوا ہو تو ایسے میں اکیلے اپنے گھر کو اس گندگی سے بچایا نہیں جا سکتا۔ مگر بڑے شہروں میں جگہ جگہ کچروں کے ڈھیر دیکھ کر لگتا ہے شہروں میں بھی پڑھے لکھے لوگوں ، شہریوں میں سماجی شعور کا فقدان ہے۔ بلکہ اتنا کچرا تو جانور بھی نہیں پھیلاتے ہیںیہی وجہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں صفائی کا ذکر بھی ہم صرف تقریروں تحریروں اور باتوں میں ہی سنتے یا پڑھتے رہے ہیں۔ نصف ایمان کا موجب بننے والا یہ صفائی جیسا اہم کام ہم عملی طور پر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ صفائی ہی کسی قوم ، شہر یا ملک کی نشو و نما٬ ترقی اور حقیقی استحکام کی ضامن ہوتی ہے اور ساتھ ہی اعلیٰ تہذیب کی علامت بھی، کسی علاقے کے لوگ کتنے مہذب ہیں اس کا اندازہ ان کے گھر، محلہ، گلی اور شہر کی صفائی سے ہوتا ہے۔ جبکہ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ بھی شہر کی صفائی اور اس کی سڑکوں اور پلوں سے ہوتا ہے، عام کہاوت ہے کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے اور صحت مند دماغ صحت مند قوم پیدا کرتے ہیں، لہذا صحت مند جسم بنانے کے لیے صاف ستھرا ماحول اور صاف ستھری فضا درکار ہوتی ہے دنیا بھر میں ترقی یافتہ مہذب یافتہ قوموں معاشروں اور غیر مہذب معاشروں میں ایک بنیادی فرق جو نظر آتی ہے وہ صفائی اور گندگی کا ہے۔ ہر ظاہری گندگی کے پس پردہ باطنی گندگی کے کئی عوامل کا ر فرما ہوتے ہیں۔صفائی اور گندگی کا براہ راست تعلق انسان کے ذہن اور سوچ سے ہوتا ہے، ظاہری صفائی کے لئے جو شہہ ملتی ہے وہ بھی باطنی صفائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ دیرپا صفائی کے لئے ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی کا ہونا ضروری ہے۔ صفائی کو جب تک زندگی کا لازمی حصہ نہیں بنایا جاتا اور اس سے متعلق احساس کو فروغ نہیں دیا جاتا تب تک وہ موثر صفائی نہیں کہلا سکتی۔مگر ہم پھر بھی صفائی کی جانب کم توجہ دیتے ہیں۔جبکہ باقی دنیا میں عبادت کی طرح صفائی کو ہر شخص اپنا دینی و اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔
دنیا کے دس صاف ستھرے شہروں کی فہرست میں ناروے کا شہر اوسلو، اسٹریا کا شہر وینا،سویڈن کا شہر اسٹوکولم، جاپان کا شہر کوبی،سویزرلینڈ کا شہر زوچ ، سنگاپور اور لگزمیرگ شامل ہیں۔مذکورہ تمام شہروں میں صفائی کے حوالے سے سخت اصول طے کئے گئے ہیں۔صفائی کے حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میں باقاعدہ قانون سازی بھی کی گئی ہے اور ایسے قوانین پر سختی سے عملدرآ مد کرایا جاتا ہے کیونکہ دنیا کا خیال ہے کہ صفائی سے معاشرے میں نصف بیماریاں کم ہو سکتی ہیں جبکہ اس سے سیاحت کو فروغ ملنے کے علاوہ معاشرے میں بسنے والوں کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بے شک یہ بھی سچ ہے کہ جس مقام پر آپ رہائش پذیر ہوں اگر وہ صاف ستھری ہو تو آپ خود کو اندرونی طور پر پرامن اور مستحکم محسوس کرتے ہیں-اور صا ف ستھرے ماحول سے انسان کے اندر ایک خوشگوار احساس ابھرتا ہے۔
صفائی ستھرائی محض شہر کی خوبصورتی کا باعث ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ شہریوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں گورننس کے مسائل ہیں تو وہاں شہریوں میں سماجی شعور بھی نہیں ہے۔یہ معاملہ محض ہم حکومت پر ڈال کر شہریوں کو باہر نہیں نکال سکتے جہاں حکومتیں یا ان کے ادارے ذمے دار ہیں، وہیں لوگ بھی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا نہ تو شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی انھیں اس کا ادرک ہوتا ہے۔ایک دیر پا صفائی کے لئے اس سے بہتر کوئی فارمولا نہیں ہو سکتا ہے کہ اس گھر میں بسنے والے انسانوں کو صفائی سے متعلق بنیادی تعلیم دی جائے۔ دنیا بھر میں جن جن ممالک میں صفائی کی صورتحال بہتر ہے وہاں صفائی کرنے والوں کا کمال نہیں ہے بلکہ وہاں بسنے والے لوگوں کا احساس ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے وہ گندگی پھیلنے سے روکتے ہیں۔
سنگاپور 734 مربع کلومیٹر پر محیط ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک ہے جس کی آبادی صرف 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔1965ءمیں ملائیشیا سے علیحدہ ہونے کے بعد اس چھوٹے سے ملک نے ترقی کی حیرت انگیز منازل طے کی ہیں۔اس وقت سنگاپور کا شمار ترقی یافتہ اور صاف ستھرے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ملائیشا سے علیحدگی کے بعد یہاں بے روزگاری اور شہریوں کے لیے ناکافی رہائشی سہولیات جیسے مسائل کا سامنا تھا۔70 کی دہائی میں سنگاپور کو جدید خطوط پر استوار کرنا شروع کیا گیا۔صنعت کو فروغ دیا گیا لوگوں کے لیے گھر بنائے گئے اور تعلیم پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔ اعلی تعلیم کے حامل ممالک کی درجہ بندی میں سنگاپور کا نمبر چھٹا ہے۔اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں سنگاپور دنیا کے تمام ممالک میں سرفہرست ہے۔سنگاپور کا شمار دنیا کے تیسرے کرپشن فری ملک میں ہوتا ہے۔مستقبل کے لیے پیش بندی کرنے والے ممالک کی فہرست میں سنگاپور کا نمبر چوتھا ہے۔یہ دنیا کا پانچوں محفوظ ترین ملک ہے۔اس کے علاوہ سنگاپور کی وجہ شہرت یہاں صفائی ستھرائی کا عمدہ نظام ہے جس کی بدولت یہاں کے گھر،عوامی و سرکاری عمارتیں، سڑکیں،بس اسٹاپ سے لے کر پارک اور گلیوں سمیت ہر چیز کوڑے کرکٹ سے بالکل پاک ہے۔صفائی کے اس معیار کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کچرا بالکل پیدا نہیں ہوتا۔یہاں بھی کچرا پیدا ہوتا ہے مگر سنگاپور نے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا قابل تقلید حل اختیار کر رکھا ہے۔سنگاپور ایک ایسا ملک ہے جو کچرے سے بجلی بناتا ہے۔یہاں کچرا جمع کرنے کا ایک منظم نظام موجود ہے جس کے تحت ملک بھر سے بڑی عمدگی کے ساتھ کچرا جمع کیا جاتا ہے۔کچرا جمع کرنے کے بعد بجلی بنانے والا پلانٹ تک پہنچایا جاتا ہے جہاں کچرے کو محفوظ طریقے سے جلایا جاتا ہے۔اس پلانٹ کے اندر مسلسل آگ دہکائی جاتی ہے۔آگ کا درجہ حرارت 1000 ڈگری سیلسیس تک ہوتا ہے جو ہر چیز کو جلا کر راکھ بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پلانٹ میں کچرا جلانے سے آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔جب ہم پلاسٹک سے بنی اشیاءجلاتے ہیں تو ان سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے۔لیکن بجلی بنانے والے پلانٹ میں کچرا جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں کو بھی فلٹر کیا جاتا ہے۔اس پراسس میں دھواں نا صرف فلٹر ہوتا ہے کہ بلکہ فلٹر ہونے کے بعد خارج ہونے والی ہوا سنگاپور کی فضاءمیں موجود ہوا سے بھی زیادہ صاف ہوتی ہے۔فلٹر شدہ ہوا کو فضائ میں چھوڑنے کے لیے پلانٹ کے اوپر بڑی بڑی چمنیاں لگائی گئی ہیں جن سے فلٹر شدہ صاف ہوا ہر وقت فضاءمیں شامل ہوتی رہتی ہے۔سنگاپور کے روزانہ پیدا ہونے والے کچرے کا 90 فیصد حصہ چند گھنٹوں میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔کچرے کا باقی 10 فیصد راکھ کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ راکھ بھی دھوئیں کی مانند زہریلی ہوتی ہے۔اس راکھ کو ٹرکوں میں بھر کے مصنوعی جزیرے میں پھینک دیا جاتا ہے جس کا پانی سمندری پانی سے نہیں ملتا۔یہ راکھ زیر آب رہتی ہے اور کسی قسم کی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔یہ سارا پراسس اتنا صاف ستھرا ہے کہ اس سے جزیرے کے ہرے بھرے جنگلوں اور جزیرے کے پانیوں میں سمندری حیات سمیت کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔جہاں ایک پلاسٹک بیگ کو قدرتی طور پر ختم ہونے میں 500 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے وہیں سنگاپور میں یہ پلاسٹک بیگ ایک دن میں جل کر بجلی پیدا کرنے کے بعد راکھ میں تبدیل ہو کر مصنوعی جزیرے میں زیر آب پہنچ چکا ہوتا ہے الغرض سنگاپور وہ ملک جسے صاف ستھرا رہنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔۔ یہاں آج بھی چیونگم فروخت کرنا منع ہے۔
اوسلو ناروے کا دارالحکومت ہے، دنیا کا ایک صاف ستھرا اور خوبصورت شہر ہے۔
سوئزر لینڈ میں جابجا چار مختلف قسم کے کوڑے دان نظر آتے ہیں جہاں بوتل، کاغذ، نامیاتی اجزا اور عام کچرے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ انہیں ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔ اس سے عوام کی تعلیم اور شعور کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
جاپان کا شہر Kobe بھی صفائی کا ایک بہترین مثال ہے، اس کی صفائی کا جدید نظام اسے دوسرے شہروں سے منفرد بناتا ہے، نکاسی آب اور گند کے اخراج کے لیے باقاعدہ الگ سے راستہ بنایا گیا ہے۔
Copenhagen, ڈنمارک اس شہر کو یورپ کے سب سے صاف ستھرے شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس شہر کو یہ اعزاز مختلف یورپی ممالک میں سفر کرنے والے مسافروں اور سیاحوں سے سروے کرنے کے بعد حاصل ہوایہ دنیا کا سب سے سرسبز مقام بھی ہے، ڈنمارک کا یہ شہر پیدل اور موٹر سائیکل پر سفر کرنے والوں کا، اپنے سرسبز نظاروں کے باعث دوست سمجھا جاتا ہے درحقیقت اس شہر میں جو گند اور ردی اکٹھی ہوتی ہے اسے توانائی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
Wellington کو نیوزی لینڈ کا سب سے صاف اور سرسبز شہر تسلیم کیا جاتا ہے، صاف ستھرے شہروں کی اس فہرست میں اس کو شمار کیے جانے کی بنیادی وجوہات یہاں کا اعلیٰ طرز زندگی، کھلے مقامات اور یہاں کا ری سائیکلنگ پروسیس ہے اور یہ ری سائیکلنگ پروسیس ہی شہر کے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاتا ہے۔
فن لینڈ کا شہر Helsinki انتہائی دلچسپ خوبیوں کا مالک شہر سمجھا جاتا ہے، اس شہر میں صاف ستھرے ٹوائلٹ کی سہولیات، ڈپارٹمنٹ اسٹور، خریداری کے مراکز اور دیگر بہترین مقامات بھی موجود ہیں۔ یہاں کا ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی صاف اور شفاف ہے، چاہے آپ کسی دوسرے درجے کی ٹرین میں ہی سفر کیوں نہ کر رہے ہوں۔
دنیا بھر میں ہر سال دو بلین ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے۔یہ کچرا اتنا زیادہ ہے کہ اس سے 8 لاکھ اولمپک سائز کے سوئمنگ پول بھرے جا سکتے ہیں۔اس سارے کچرے کا ایک تہائی حصہ کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے جس سے بہت زیادہ آلودگی پیدا ہوتی ہے اور بے شمار بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔کچرے کی پیداوار میں اضافہ یوں ہی جاری رہا تو اگلے چند سالوں میں کچرے کی سالانہ پیداوار دو بلین ٹن سے بڑھ کر ساڑے تین بلین ٹن تک پہنچ جائے گی۔کئی ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو ری سائیکل کرکے کار آمد بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی صاحب نے اچانک کوئیٹہ شہر کا دورہ کیا۔انہوں نے شہر میں صفائی کی صورتحال کا جائزہ لیا اور ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو بریفنگ بھی دی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا، کوئٹہ ہمارا چہرہ ہے یہاں پورے بلوچستان سے لوگ آتے ہیں، حلف لینے کے بعد سب سے پہلے کمشنر کوئٹہ کو شہر کے مسائل حل کرنے کا ٹاسک دیا تھا، کمشنر کوئٹہ کو 2 ماہ میں شہر کا کچرا ٹھیکانے لگانے اور ٹریفک کے مسائل حل کرنے کا ٹاسک دیا ہے، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی صاحب نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں ڈیڑھ لاکھ ٹن کچرہ پڑا ہے جسے ٹھیکانے لگانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا ہے، یہ ایک احسن اقدام اور قابل تعریف عمل ہے۔
جس طرح صاف ستھرا پنجاب مہم کے آغاز سے متعلق وہاں کے اہلکار نے بتاتے ہوئے کہا کہ امراءکے محلوں میں تو صفائی ستھرائی دکھنے کو ملتی ہیں لیکن غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گلی محلوں کی صفائی کا حکم دیا ہے۔بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کے بھی گلی محلوں سڑکوں کی زبردست صفائی کی اشد ضرورت ہے۔
ماضی میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناہ اللہ زہری کی خصوصی ہدایت پر بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں صفائی مہم کا آغاز کردیا گیا تھا جسمیں رکن صوبائی اسمبلی طاہر محمود ، مئیر ڈاکٹر کلیم اللہ اور ڈپٹی مئیر سمیت کونسلروں نے جھاڑو لگا کر اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یہ مہم نہ صرف ایک ماہ تک جاری رہنے کا کہا گیا تھا بلکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس مہم کے دوران شہر کو گند سے پاک کردیا جائے گا۔زہری کی حکومت ختم ہوگئی مگر کوئٹہ کا گند ختم نہیں ہوا۔ وادی کوئٹہ آج بھی آب و تاب کے ساتھ گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کررہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں گذشتہ ادوار میں عوام اور حکومتیں دونوں اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔
ماضی کا لٹل پیرس کوئٹہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ آلودگی، شاہراہوں کی، فٹ پاتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار مین ہول کھلے اور نالیوں کا گندا پانی سڑکوں پر بہنے، صفائی ستھرائی نہ ہونے سے شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ کوئٹہ کی مصروف شاہراہوں پر لوگوں کا گزرنا محال ہوگیا ہے۔ جس سے لوگوں کو ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نالیوں کا پانی سڑکوں پر بہتا اور کھڑا رہتا ہے جس سے لوگوں کو گزرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے گندے پانی پڑنے سے لوگوں کے کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ نالیوں کے مین ہولوں کے ڈھکن نہ ہونے اور فٹ پاتھ کے ٹوٹنے سے پانی ہمیشہ سڑک پر کھڑا رہتا ہے کھڑے پانی میں کچرے اور مٹی پڑنے سے تعفن پھیل رہا ہے۔ سیوریج کا نظام بد سے بدتر ہے۔سالانہ صفائی ستھرائی اور کوئٹہ کی خوبصورتی، شاہراہوں اور فٹ پاتھوں کی تعمیر و مرمت کے لئے کروڑوں روپے ریلیز ہوتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔عدم توجہی اور ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کی وجہ سے شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں مخلص نظر نہیں آرہا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر سست روی کا شکار ، جگہ جگہ کھڈے ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، بے ہنگم ٹریفک کے مسائل نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔
ماضی کے حکومتوں متعلقہ اداروں کی عدم توجہی اور ضروری مشینری گاڑیوں وسائل کے فقدان کے باعث آج بھی کوئٹہ میں ہر قدم پر کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ملتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے جگہ جگہ گندگی کے انبار دیکھ کر ایسے لگتا ہے لاوارث شہر ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بدترین سڑکوں کی وجہ سے جینا محال ہے شعبہ صفائی اور کچرہ ڈھلائی کے شعبوں کو فعال کرنا پڑے گا۔
کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا ایک تو علاقہ چھوٹا اور محدود ہے جبکہ کوئٹہ اب بہت پھیل چکا ہے وسیع علاقہ بن چکا ہے آبادی بہت بڑھ چکا ہے۔شعبہ صفائی کا الگ محکمہ الگ وزیر ہونا چاہیے۔
بلکہ شعبہ شجر کاری کا بھی الگ وزیر الگ محکمہ ہونا چاہے۔
کوئٹہ کی صفائی کی ناقص صورت حال ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کے پیچیدہ اجتماعی، ماحولیاتی، اور انتظامی مسائل اس مسئلے کو مزید بڑھاتے ہیں۔ صفائی کے مسئلہ کے حل کیلئے محلی حکومتوں کو منظور شدہ منصوبوں کو عملی بنانے اور عوام کو شعور اور تعلیمی منصوبوں کے ذریعے اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، عوام کو بہترین تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صفائی کے اہمیت کو سمجھ سکیں اور اسے اپنایا جا سکے۔
کوئٹہ میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں جس سے بدبو اور بیماریاں پھیلتی ہیں صاحب اقتداروں کے ہوتے ہوئے بھی اس گندگی کے انباروں کو ٹھکانے لگانے کی طرف دھیان نہیں دیا گیا، ہمارے بلوچستان میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام سب سے بڑا مسئلہ ہے، لوگوں کا جہاں دل کرتا ہے وہاں پر ہی کوڑا پھینک دیتے ہیں یہی وجہ ہے ہر گلی برجگہ ہر خالی پلاٹ پر کوڑے کا ڈھیر نظر آتا ہے حکومت اور عوام ان کچروں کے ڈھیروں کے آگے بالکل بے بس نظر آتے ہیں بلکہ سب ہی بے حس لگتے ہیں حکومت عوام سے ہر چیز حتی کہ ماچس تک پر بھی ٹیکس لیتا ہے اس لیے حکمرانوں کا فرض بنتا ہے وہ اپنے عوام کو ان گندگی کے ڈھیروں سے نجات دلانے کا مناسب اور مستقل پیمانے پر بندوست کریں لیکن ہمارے ہاں ہر کوئی اپنی من مانی کرنے میں لگا ہوتا ہے عوام سے حکمرانوں تک اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کا یہی نتیجہ ہے ہرجگہ کچرہ ہی کچرہ ہے ویسے کچرے کی بڑی وجہ پلاسٹک کی تھیلیاں بھی ہیں ان کے استعمال پر پابندی عائد کیا جانا چاہیے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث کوئٹہ کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا کوڑے کو تلف کرنا ہے جبکہ تکنیکی طریقے سے اس کوڑے کے ذریعے بجلی بھی بنایا جاسکتا ہے کوئٹہ میں کوڑا تلف کرنے کا کوئی خاص نظام موجود نہیں 2011 کو 7 سال کیلئے لاہور کا کوڑا اٹھانے کے لیے 40 ارب روپے میں غیر ملکی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا 40 فیصد کوڑا ری سائیکلنگ کرکے بیچا گیا کوئٹہ میں صفائی کے نام پر صرف خزانے کی صفائی ضرور جاری رہی۔
کوئٹہ کی صفائی کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ صفائی، شہری حکومت، اور اہلیانِ شہر کا تعاون ضروری ہے۔ صفائی کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات اختیار کئے جا سکتے ہیں:
1_صفائی کے نظام کو موثر طریقے سے مستقل بنیادوں پر مسلسل بر قرار رکھنے کے لئے سخت نظام وضع کیا جائے۔اس کی لیے افسر صفائی اور اسکا محکمہ عملہ جدا مختص کیا جانا چاہے ،جس کا کام صرف صفائی ہو۔
2_ تشہیری مہمیں جانچ پڑتال کریں تاکہ لوگوں کو کچرے کو صحیح جگہ پر ریختہ کرنے کی اہمیت کا علم ہو۔
3_ عوام کو صفائی کی اہمیت کو سمجھانے کے لیے تعلیمی کیمپینز کا انتظام کریں۔
4_ شہری حکومت کو منظم کچرے کی بچت اور دورانیہ کی صفائی کیلئے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔
5_ کچرے کی مناسب طریقے سے نکالنے کی منصوبہ بندی اور منظم طریقے سے دورانیہ کرنا ضروری ہے۔
6_ شہری مناطق میں کچرے کی مناسب جگہوں پر مخصوص کمپوسٹنگ سائٹس کا قیام کریں۔
7_ شہری حکومت کو عوام کے کچرا ا±ٹھانے بارے شکایات کو فوری طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
8_گلی محلوں کی سطح پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
9_کمیونٹی کی صفائی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ بھی اپنی شہری ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ کوڑا کرکٹ کے خلاف ہر ماہ ایک دن منایا جائے۔
10_مہینے میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے کہ اس دن تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے لوگ اپنے دفاتر، ہوٹل، دکان، سکول، کالج سے باہر نکل کر اطراف میں سو سے دوسو میٹر کے فاصلے پر موجود کچرا اٹھانے اور اس کو ڈسٹ بن میں ڈالنے کا عملی مظاہر کریں۔ یہ روایت جاپان میں قائم ہے جہاں ہر روز تمام لوگ چاہے وہ آفیسر ہو یا عام آدمی اپنے گھر، دکان، دفتر ، ہوٹل وغیرہ میں جھاڑو لیکر صفائی کرتے ہیں اس کے بعد وہ اپنا دیگر کام کرتے ہیں۔
11_تمام دکانداروں کو اپنی دکانوں میں ڈسٹ بن رکھنے کی سختی سے ہدایت کہ جائے اس ضمن میں مجسٹریٹ وقتا فوقتا چھاپہ مارا کریں جو دکاندار اس پر عمل نہ کریں یا اس کی دکان کے آس پاس کچرا نظر آنے کی صورت میں اس کا جرمانہ کیا جائے۔
12_ہوٹلوں کے باہر ڈسٹ بن کا نصب کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ ہوٹلوں میں صفائی کو بر قرار رکھنے کے لئے سخت نظام وضع کیا جائے۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ اکثر ہوٹلوں میں صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہو تا ہے۔ سب سے زیادہ ہوٹل میں کام کرنے والا عملہ گندا ہو تا ہے۔ہوٹل مالکان کو پابند کیا جائے کہ waiters ,workers کے لباس صاف ستھرے ہوں۔ بلکہ تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں عملے کے لئے یونفارم متعارف کرانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
13_ شہر میں صفائی کے حوالے سے اہم مسلہ ڈرینج اور سیوریج سسٹم کا ہے۔ اس کی بہتری کے لئے ایک تین سالہ منصوبہ بنایا جائے۔
14_ٹرانسپورٹ کے اڈے ، سبزی منڈی ، ہستالوں سکولوں کے اطراف کچروں کے لیے مناسب جگہوں اور انکے صفائی کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔
15_تمام آٹو ورکشاپس و قصائی والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف کو صاف ستھرا رکھیں۔
16_شجر کاری کی مدد سے شہر کو صاف ستھرا رکھا جائے،
17_ حکومت کی طرف سے شہر کی سڑکوں کی مرمت کا کام بھی جلد مکمل کیا جائے
18_ان اقدامات کی انجام دہی سے کوئیٹہ کی صفائی بہتر ہو سکتی ہے۔یہ سارے کام صرف کوئیٹہ شہر میں نہیں بلکہ تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں کیا جانا چاہیے
19_مذکورہ تمام معاملات پر عملدرآمد کے لئے ہوٹل ایسوسی ایشن اور انجمن تاجران کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ سارے کاموں کے لئے کسی قسم کے کوئی بے تحاشا وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف اور صرف خلوص نیت اور ارادے کی ضرورت ہے۔
20_مقامی آبادی میں سماجی شعور پیدا کرنا ہوگا کہ شاپرز یعنی پلاسٹک کی تھلیوں کا استمال کچرے کے انبار کی بنیاد اور نالی کے لائنوں کی بندش کی بڑی وجہ بھی ہے۔
21_دنیا میں کچرے کو Waste to Energy کی شکل میں بھی استعمال ہوتا ہے اور توانائی حاصل کی جاتی ہے۔کوئیٹہ میں بھی اس پر کام شروع کردیا جائے۔جو دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے 60 سے 70 میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ بائیو گیس منصوبہ شروع کیا جائے۔
22_صفائی کے نظام کو اور زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔ بنیادی بات محض کوڑا اٹھانے کی نہیں ہے بلکہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ہے، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے کچرے کی وجہ سے اپنا ماحول اور زیر زمین صاف پانی کو زہریلا بنارہے ہیں۔
اصل مسئلہ شہریوں کی تعلیم اور آگہی کا ہے۔ اکیلی حکومت یا کوئی ادارہ سارا کام نہیں کرسکتا، شہریوں کو بھی شعور اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔کیونکہ صفائی صرف حکومت کی ضرورت نہیں بلکہ امن کی طرح یہ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں