بی ایم سی اور طلباء تنظیمیں
جواں باز مری
اگر ماضی کو دیکھا جائے تو بلوچستان کے طلباء و طالبات کے تعلیمی و اکیڈمک حقوق کی جنگ میں بی ایم سی ہمیشہ سے مرکزی کردار رہا ہے ،اور اسی مقام سے طلباء کا جوش ،جذبہ ،تربیت اور قومی سوچ پروان چڑھی ہے،بلوچستان کے باسی ہونے کی حیثیت سے بلوچستان میں دو برادر اقوام بلوچ اور پشتون روز اول سے ایک دوسرے کے دکھ،درد،خوشی،غم اور ہر طرح کے جدوجہد میں ویسے ہمیشہ سے ایک دوسرے کے شانہ با شانہ کھڑے رہے ہیں جس کی مثالیں دور قدیم سے نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کی جنگی دستوں سے لیکر دور حاضر تک تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں لیکن اگر بی ایم سی سیاست میں ان دو برادر اقوام کے دوستانہ تعلقات دیکھےجائیں تو بہت ہی مظبوط رہے ہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ تو ماضی سے روایتی دوستی اور پھر ڈاکٹرز ہونے کی حیثیت بھی ہے جس پروفیشن میں قوم،رنگ،نسل اور مذہب کو نہیں بلکہ انسانیت کو دیکھا جاتا ہے۔
ماضی سے اب تک بہت سے ایسے دل خراش واقعہ بھی رونما ہوئے ہیں جن میں بلوچ و پشتون طلباء آپس میں دست و گریبان رہے ہیں لیکن پھر جلد ہی شیر وشکر بھی ہوئے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بلوچ اور پشتون تاریخ کے کسی بھی موڈ پر دشمن نہیں رہے ہیں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدرد اور ضروری وقت پر ایک دوسرے کو مدد کرتے رہےہیں، جس کی مثال بلوچ اور پشتون کے درمیان رشتہ داریاں ہیں، چھوٹے موٹےجھگڑے دنیا کے ہر گھر اور سوسائٹی میں ملیں گے لیکن جلد ہی ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم ہو جاتے ہیں جو ایک فطری بات ہے۔
لیکن اب تک کی ان دونوں اقوام کی سیاست کو بی ایم سی میں دیکھا جائے تو کبھی بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ وہ آپس میں ناراض ہوکر کسی اور کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہوں چاہے وہ کالج انتظامیہ ہی کیوں نہ ہو،کچھ ایجنڈوں اور پوائنٹس اور حکمت عملی پر بے شک اختلاف رہا ہے لیکن اپنے طلباء کی حقوق کیلئے دونوں اقوام کے طلباء ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔
اور اسی لیئے بلوچستان کے طلباء سیاست میں بی ایم سی کو ایک بڑا مقام حاصل ہے
لیکن بہت ہی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل کی بی ایم سی سیاست میں دور دور تک ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور بلوچ و پشتوں طلباء کے اسطرح حالات کشیدہ ہونے کو کوئی بہت بڑا وقت نہیں گزرا ہے بلکہ ۸ ،۹ مہینوں کا عرصہ ہوا ہے اور انکے حالات کشیدہ ہونے کا کوئی بڑا وجہ نہیں ہے
ہر دور میں اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ڈیپارٹمنٹ ،سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی ہیڈآفس یپارٹمنٹ ،ڈین،پرنسیپل اور وائس چانسلر مستقل طور پر طلباء کےدوست نہیں رہے ہیں لیکن عارضی بنیادوں پر مختلف حربوں اور سیاست سے مختلف کارڈ استعمال کرکے کچھ وقت کیلئے طلباء کے ساتھ تعلقات بنانے میں کچھ حد تک کامیاب رہے ہیں
اور آجکل با لکل اسی طرح کا حربہ پشتون طلباء کے ساتھ کھیلا جارہا ہے جس نے پشتون طلباء کو اپنے بلوچ بھائیوں سے جدا کیا ہوا ہے جس سے بظاہر تو انظامیہ کامیاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور یہاں پھر یونیورسٹی انتظامیہ کیطرف سے لسانی کارڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
لیکن فی الحال تواس حربے سے پشتون طلباء بالکل استعمال ہورہے ہیں لیکن اس میں اچھی بات یہ ہے کہ اس لسانی کارڈ سے صرف ایک مخصوص lobby استعمال ہورہا ہے جو اپنی زاتی مفادات کیلئے اپنے تنظیموں کو استعمال کررہے
لیکن یہ حربہ بہت دیر تک چلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ با شعور اقوام اور طلباء اسطرح کے حربوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن اسطر ح کے حربے مستقبل میں بھی چلتے ہوئے اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو بی ایم سی سےطلبا تنظیموں اور طلباء سیاست کا جنازہ نکلتا ہوا زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔