قلات عطائی ڈاکٹروں کا انسانی زندگیوں گھناؤنا کھیل جاری، زمہ دار کون؟
یوسف عجب بلوچ
بلوچستان میں شعبہ صحت کی ابتری کوئی ڈکھی چھپی حقیقت نہیں۔وسائل اور سہولیات کی کمی وجہ سے شعبہ صحت کو درپیش مسائل کا خاتمہ صرف ایک سراب ہی ہوسکتا ہے۔بلوچستان کے مختلف شہروں میں اسٹاف اور خاص طور پر ڈاکٹروں کی کمی اور غیر حاضری جہاں ایک اہم مسئلہ ہے وہاں عطائی ڈاکٹروں کی موجودگی اور ان کا انسانی زندگیوں سے کھلواڑ ایک سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع قلات اور خاص طور پر قلات شہر میں عطائی ڈاکٹر، جعلی کلینکس، اور لیبارٹری موجود ہیں مگر ڈرگ انسپیکٹرز کا دورہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی محکمہ صحت ان کے خلاف متحرک نظر آتی ہے۔ قلات شہر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھرمار کی وجہ سے شہر سمیت ضلع کے مختلف علاقوں میں عوام کی زندگیوں کے ساتھ نہ صرف ایک گھناونا کھیل جاری ہے بلکہ غیر معیاری ادویات کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔عطائیت کے اس کام میں شامل افراد کا تعلق یا تو شعبہ صحت سے ہے یا پھر جعلی اسناد کی بنیاد پر ڈاکٹر بن کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
اسی طرح شہر میں موجود میڈیکل اسٹورز کی ایک بڑی تعداد بغیر کسی مستند فارماسسٹ کے چل رہے ہیں اور غیر معیاری ادویات کے کاربار کو فروغ دینے میں مصروٖف ہیں۔ اسکے برعکس بلوچستان میں اب 2000ہزار کے قریب فارماسسٹ بیروزگار اور 500کے قریب زیر تعلیم ہیں۔ہر دور میں حکومتی غیر سنجیدگی کا یہ حال رہا ہے کہ بلوچستان میں سینکڑوں میڈیکل اسٹورز بغیر کسی مستند فارماسسٹ کے موجود ہیں اور کچھ پر صرف ان کی اسناد سے ہی کام لیا جاتا ہے۔
عطائی ڈاکٹروں کے حوالے سے شعبہ صحت سے وابستہ پرنس آغا عبدالکریم ہسپتال کے ایم۔ایس ڈاکٹر علی اکبر نیچاری کا کہنا ہے کہ عطائی ڈاکٹر وہ حضرات ہیں جن کو علاج معالجے کے حوالے سے نہ ہی بنیادی معلومات حاصل ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہیں بس دوسروں کے دیکھا دیکھی یہ وہ کام کرتے ہیں اسی طرح ادویات کااستعمال یا ان کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں بھی ان کو کوئی علم نہیں ہوتا۔
عطائی معالجین کی طرف سے دی گئیں ادویات یا ان کے علاج اور نقصانات کے حوالے سے ڈاکٹر علی اکبر نیچاری نے بتایا کہ عطائی ڈاکٹر وں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ کسی مریض کو کب،کیسے اور کس طرح یا کس وزن کے مطابق ادویات دینے چاہیے۔ایک اور سوال کے جوان میں انہوں نے بتایا کہ عطائی ڈاکٹر عموما اسٹیرائیڈ ادویات استعمال کرتے ہیں اور اکثر ان کا کام انجیکشن اور ڈرپ لگانا ہوتا ہے جس میں وہ ادویات استعمال کرتے جن کی عام طور پر ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ زندگی بچانے والی ادویات ہوتیں ہیں اور ان کے استعمال کے بعد دوسری ادویات کا اثر نہیں ہوتا جسکی وجہ سے ایک سنگین ردو عمل کے ساتھ ساتھ درجنوں دوسری پیچیدگیاں جم لیتی ہیں جن میں گردوں کا متاثر یا ناکارہ ہونا عام سی بات ہے۔
ایک سماجی ورکر نے اپنا م ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ قلات بازار سمیت ڈسٹرکٹ سول ہسپتال کے قریب میڈیکل اسٹورز میں عطاہیت اپنے عروج پر ہے مگر اس بارے ذمہ دار حکام کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سماجی ورکر نے الزام لگایاکہ سادہ لوح افراد کو لوٹنے اور ان کو صحت کے مسائل سے دوچار کرنے میں سول اسپتال کا عملہ بھی ساتھ ہے کیونکہ شام کے اوقات میں سول ہسپتال کے لیب اور ادویات کا اسٹور بند کردیا جاتا ہے اور عموما ڈاکٹرزبھی موجود نہیں ہوتے جسکی وجہ سے عطائی ڈاکٹروں اور جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کو ایک اور موقع ہاتھ آجاتا ہے۔
ایک اعداد شمار کے مطابق بلوچستان کے ہر ضلع میں دو درجن سے زاہد عطائی یا جعلی ڈاکٹر موجود ہیں مگر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں یہ تعداد سینکڑوں کی تعداد میں ہیں یوں تو ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان پیرا میڈیکل اسوسی ایشن کی طرف سے عطائی ڈاکٹروں کی روک تھام کے لیے خصوصی کمیٹی موجود ہے جوکہ شکایات متعلقہ محکموں کو بھیجتی ہے مگر اس بارے اس تنظیم کی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہیں آتی۔ قانون کے مطابق کوئی بھی ڈسپینسر، کمپاونڈر، نرس یا حکیم اینٹی بائیوٹکس ادویات کا نسخہ نہیں دے سکتے اور ایسا کرنے کی صورت میں ان کو جرمانہ اور قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
قلات کے رہائشی ایڈوکیٹ محمد اکبرکا قلات میں عطاہیت اور جعلی ادویات کے کاروبار کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا غریب اور نادارلوگوں کوقلات میں بڑی بے دردی سے لوٹا جارہا ہے اور اس گھناونے کاربار میں ملوث افراد نہ صرف لوگوں کو مالی طور پر نقصان دے رہے ہیں بلکہ انہیں جسمانی طور پر نقصان دینے کے مرتکب ہورہے ہیں اورقانون کے مطابق ان کے خلاف کاروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایڈوکیٹ محمد اکبرنے اس بات پر بھی زور دیا سرکاری ہسپتال میں موجود اہلکار بھی باز اوقات ڈاکٹروں کی مشاورت کے بغیر اپنی کم علمی کی وجہ سے مریضوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہی عمل وہ پھر بعد میں پرائیوٹ کلینکس میں بھی دہراتے ہیں اور یہ واقعات اکثر جم لے رہے ہیں۔
عطائی ڈاکٹروں، ڈاکٹروں اور جعلی ادویات ساز اداروں کے گٹھ جوڑ نے ملک سمیت پورے بلوچستان کو متاثر کیا ہوا ہے مگر اس ملی بھگت پر حکومت اور انتظامیہ اور ذمہ دار ادروں نے چپ کا روزہ رکھاہوا ہے۔ اس حوالے قلات میں عطاہیت کی بیخ کنی کے لیے راقم نے جب ڈپٹی کمشنر عزت نزیر کی رائے جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا اگر قلات میں عطائی ڈاکٹروں کی نشاندہی کی جائے تو وہ اس حوالے سے ضرور کاروائی کرینگے۔
حال ہی میں تعینات ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرڈاکٹر نصراللہ لانگو نے عطاہیت کو ایک المیہ گردانتے ہوے کہا کہ یہ ایک طبی فراڈ ہے جوکہ غریب اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ ہونے والے کسی جرم سے کم نہیں ہے۔کیونکہ یہ ایک مہلک جال ہے جو کہ ہمارے ہاں چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور گلی گلی میں موجود ہے۔لوگ عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے طرح طرح کی بیمارویوں کا شکار ہیں۔ڈاکٹر نصراللہ لانگو کا عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا تھا کہ قلات شہر میں ادویات کی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ڈرگ انسپیکٹر کے ساتھ مل کر کاروئی کرینگے اور جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے لائسنس بھی چیک کرینگے تاکہ عوام کے صحت کے ساتھ ہونے والے گھناونے کاروبار کو روکا جاسکے۔