بلوچستان کی سلیکٹڈ حکومت
تحریر: سمیر رئیس
ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ جس ملک کے حکمران اپنے عوام کو جب ایک بار بنیادی سہولیات دے رہے تھے ان کے لیے اپنے رات دن ایک کر رہے تھے پھر اچانک ایسے کیا ہوگیا جو سب کچھ چھیننے لگا اور آخر کیوں ہمارے آئینی حق و حقوق پر قبضہ کرنے میں اپنا راج جمانا چاہتے ہیں؟
نالائق اور خود غرض حکمرانوں کی وجہ سے لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں دوسرے صوبوں کی نسبت سے بلوچستان سب سے زیادہ غربت کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں امن و سلامتی ہو، خطرات و خدشات سے پاک ہو اور دیرپا امن و امان قائم ہو، ان لوگوں کی دلی خواہش ہے کہ بلوچستان میں ہمیشہ کی طرح جنگ و جدل برقرار رہا جائے۔ہمیں وہ حکومت جو بلوچستان کی تاریخ میں اب تک اس نے اپنے جمہوری و آئینی فرض نبھایا ہے یہ حکومت جب بھی بجٹ پیش کرتی ہے وہ بھی بلوچ دشمنی کا ثبوت دیتی ہے کہاں گئے وہ ترقیاتی فنڈ جو بلوچستان کی شاہراہوں پر خرچ ہونے والے تھے جب یہ لوگ اسمبلی کے فلور پر بڑی بڑی تقریریں کر رہے تھے ان لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہماری پہلی ترجیح بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو اعلیٰ کوالٹی کی تعلیم دینا ہے بلوچستان کے ہر ضلع کی سطح پر وہی پرانی اسکولوں میں طلبہ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔
کچھ باتیں واضح کرتا چلوں کہ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے بلوچستان کا ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے بلوچستان کے اضلاع کیچ،آواران،قلات اور دیگر کچھ اضلاع میں انٹرنیٹ کنکشن پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بند کر دیا گیا ہے آخر کیوں اتنا ظلم کیا جا ر ہا ہے آخر ہم سے کس جنم کا بدلہ لیاجارہا ہے لیکن ابھی تک کسی نے پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ انٹرنیٹ بند کرنے کا سبب کیا ہے،ان سلیکٹڈ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو جو بغیر عوام کیووٹ کے سلیکٹ ہوئے ہیں انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے سالوں سے انٹرنیٹ کے بغیر عوام کودشواری ہو رہی ہے ہر طبقہ مایوسی کا شکار ہے۔قوم کے مستقبل آج اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی جگہ ہوٹلوں اور گیراجوں میں کام کر کے دو وقت کی روزی روٹی کما رہے ہیں اگر آج ہمارے حکمرانوں کا رُخ تعلیم اور روزگار پر ہوتا تو ہم اس دلدل سے باہر نظر آتے لیکن ایک اور مسئلہ زیر غور ہے کہ ہر کوئی اپنے دور اقتدار کے بعد اپنے آپ کو نردوش ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔یہ حکومت بس اب نام کی حکومت رہ چکی ہے اس میں نہ کوئی جان ہے نہ کام کرنے کی سکت۔ بلوچستان کی ہر گلی کوچے میں لٹیروں کا راج ہے اب حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس و لاچار بن گئے آج اگر اخلاقی اصولوں پر قائم کوئی نظام ہوتا تو آج فساد پھیلانے والے اپنے کرتوتوں سے باز آتے،بلوچستان حکومت اس حد تک گر چکی ہے کہ حکومتی وفود ہر سانحہ کے بعد لوگوں کو جھوٹی تسلی دے کر چلے جاتے ہیں۔