عدالتوں کو معاہدے دوبارہ لکھنے کااختیار نہیں ، فریقین کی رضامندی سے معاہدے میں توسیع ہوسکتی ہے،چیف جسٹس

اسلام آبااد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مستقبل کے معاہدے کو لکھنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے 1400سال قبل احکامات نازل فرمائے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے حکم پر عمل نہیں کروگے تونقصان بھی برداشت کروگے۔ پیسے کی قیمت گرتی ہے اورزمین کی قیمت بڑھتی ہے، یہ پاکستان میں رواج ہے۔ درخواست گزارنے قرآن شریف پر عمل کیا اور نہ پاکستان کے قانون پر عمل کیا، تین عدالتوں نے درخواست گزارکے خلاف فیصلہ دیا ہے،،خریدارکاکام صرف پیسے دینا ہوتا ہے۔ عدالت اس بات کانوٹس لے سکتی ہے کہ زمین کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور پیسے کی قیمت کم ہورہی ہے، ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ خریدارمعمولی سی رقم جمع کروا کر دعویٰ دائر کردے اور معاملہ سپریم کورٹ تک آئے۔عدالتوں کو معاہدے دوبارہ لکھنے کااختیار نہیں تاہم فریقین کی رضامندی سے معاہدے میں توسیع ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے زمین کی خریداری کے معاملہ پر نصیراحمد کی جانب سے خالق زاد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزارنے عدالت سے استدعا کی کہ میں ٹھیک بول نہیں سکتااس لئے میں نے اپنے بھائی کوپاورآف اٹارنی دی ہے ان کو بولنے کی اجازت دی جائے۔ چیف جسٹس نے بولنے کی اجازت دے دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خریداتھا، کتنے میں سودا ہوا۔ اس پر درخواست گزارنے بتایا کہ 34لاکھ فی مرلہ کے حساب سے 14کنال زمین خریدی تھی۔ درخواست گزارکے بھائی نے کہا کہ 6اپریل 2017کوزمین کی خریداری کے وقت 15لاکھ روپے ادا کئے جبکہ باقی رقم 6جولائی 2017تک اداکرنا تھی۔ چیف جسٹس نے درخواست گزارکے بھائی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تقریر نہ کریں ، کیا آپ نے قرآن شریف پڑھا ہے۔اس پر درخواست گزار کے بھائی نے کہا کہ پوراقرآند شریف پڑھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کے معاہدے کے حوالے سے آیت بتائیں، اللہ تعالیٰ نے 1400سال قبل کیا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے حکم پر عمل نہیں کروگے تونقصان بھی برداشت کروگے۔درخواست گزارکے بھائی کاکہنا تھا کہ سورة بقرہ میں مستقبل کے معاہدے کولکھنے کاحکم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے کی قیمت گرتی ہے اورزمین کی قیمت بڑھتی ہے، یہ پاکستان میں رواج ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے قرآن شریف پر عمل کیا اور نہ پاکستان کے قانون پر عمل کیا، تین عدالتوں نے درخواست گزارکے خلاف فیصلہ دیا ہے، خریدارکاکام صرف پیسے دینا ہوتا ہے۔درخواست گزارکے بھائی نے کہا کہ 4کروڑ67لاکھ کاسودا تھا ، 45لاکھ روپے ادارکردیئے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ پیسے واپس لے لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باقی پیسے کیوں جمع نہیں کروائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سوالوں کے جواب دیں بات ختم۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 6اپریل 2017کو معاہدہ کیااور15لاکھ روپے معاہدے کے وقت اداکئے جبکہ 30لاکھ روپے 23اگست2017کو اداکئے ۔ 23اپریل2019کو کیس دائر ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس بات کانوٹس لے سکتی ہے کہ زمین کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور پیسے کی قیمت کم ہورہی ہے، ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ خریدارمعمولی سی رقم جمع کروا کر دعویٰ دائر کردے اور معاملہ سپریم کورٹ تک آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کو معاہدے دوبارہ لکھنے کااختیار نہیں تاہم فریقین کی رضامندی سے معاہدے میں توسیع ہوسکتی ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں