تیسری عالمی جنگ کی دستک
تحریر: انور ساجدی
ایران اسرائیل اور روس و یوکرین کی جنگ میں بالآخر ایٹم بم سمیت کوئی خطرناک ہتھیار استعمال ہوسکتا ہے جس کے بعد یہ دنیا مکمل طور پر بدل جائے گی اور اربوں انسان نئے المیوں سے دوچار ہو جائیں گے جس طرح اسرائیل کی پشت پر امریکہ ہے اسی طرح حماس حزب اللہ،یمن اور عراق کے پیچھے ایران ہے۔امریکا کا واشگاف اعلان ہے کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹنے نہیں دے گا اور اگر اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اسے بچانے کے لئے ہر حد پار کر جائے گا۔مثال کے طور پر اگر ایران اتنا طاقت ور ہوا کہ اس کے بیلسٹک میزائلوں یا ایٹمی ہتھیاروں سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو امریکہ اس سے پہلے ایران پر ایٹم بم استعمال کرے گا۔ جب بھی اسرائیل غزہ لبنان اور شام پر حملہ کرتا ہے تو اس کی اطلاع امریکہ کو دیتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایران نے اسرائیل پر میزائل فائر کرنے سے چار گھنٹے قبل امریکہ کو آگاہ کیا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنےوالا ہے۔اسکی کیا توجیح اور حکمت ہے یہ تو بڑے کھلاڑی ہی جانتے ہیں۔
ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ جب حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تہران میں مقیم تھے تو اسرائیل نے اس پر کامیاب حملہ کیا اسی طرح اس نے بڑی کامیابی کے ساتھ جنوبی بیروت میں مقیم حزب اللہ کے لیڈر حسن نصر اللہ کو ٹھیک نشانہ بنایا اس حملہ کے بعد پتہ چلا کہ حزب اللہ نے جس ایرانی شخص کو اپنے میڈیا کا انچارج مقرر کیا تھا وہ دراصل موساد کا ایجنٹ تھا۔موساد اس وقت روئے زمین کی سب سے طاقت ور اور باخبر جاسوسی ادارہ ہے سی آئی اے کا نمبر اس کے بعد آتا ہے جبکہ دنیا کی دیگر ایجنسیاں کسی گنتی میں نہیں۔کسی زمانے میں کے جے بی کا بھی بڑا شہرہ تھا لیکن یوکرین کے کے ساتھ حالیہ جنگ میں کے جے بی کوئی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تنازعہ مشرق وسطیٰ کا ہے اوریہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔جنگ کا آغاز تو پچھلے سال 7 اکتوبر کو حماس نے کیا تھا جب اس کے سینکڑوں فدائین اسرائیل کے اندر داخل ہوئے تھے اور انہوں نے سینکڑوں لوگوں کا قتل کیا تھا اس کے بعد اسرائیل نے جوابی حملے شروع کئے جو تاحال جاری ہیں اگر حماس حملوں کا آغاز نہ کرتی تو اب تک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہوتا اور ساتھ میں پاکستان پر بھی دباؤ ڈالتا کہ وہ بھی یو اے ای کی طرح اس کی تقلید کرے لیکن حماس نے اس عمل کو الٹ دیا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال یکسر بدل گئی اس تنازعہ کا اصل کردار ایران ہے جبکہ حماس اور حزب اللہ پراکسی یا ذیلی کردار ہیں۔کوئی کچھ بھی کہے ایران ایک بڑا علاقائی ایکٹر بن چکا ہے یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائل کامیابی کے ساتھ اسرائیل کے اندر جا پہنچے ہیں اور اسرائیل کا اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ہنیہ اور حسن نصر اللہ کے قتلکے بعد ایران پر تنقید ہو رہی تھی کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتا حالیہ حملے اس تنقید کا جواب ہیں اگرچہ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ ایران کو سبق سکھائے گا لیکن یہ سبق سکھانے میں کچھ وقت لگے گا اور تب تک ایران اپنے دورمار اور میڈیم رینج کے میزائل یمن اور لبنان پہنچا دے گا جب ایران نے میزائل فائر کئے تو یمن کے حوثیوں نے بھی کروز میزائل پھینکے اور آئندہ وقت میں لبنان سے بھی ایسی کارروائی ہو سکتی ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم جن پر سنگین مقدمات ہیں اگر جنگ شروع نہ ہوتی تو وہ اب تک جیل جا چکے ہوتے ۔ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ جنگ جاری رہے۔لہٰذا وہ ایران پر جوابی وار کرسکتا ہے امریکی میڈیا نشاندہی کر چکا ہے کہ اسرائیل ایران کے انفرااسٹرکچر پر وار کر کے اسے تباہ کرے گا مثال کے طورپر آئل ریفائنریوں،بجلی کی تنصیبات،میزائل لانچنگ مقامات اور پاسداران انقلاب کے مراکز اسرائیل کے خاص ہدف ہوں گے لیکن ایران بہت بڑا ملک ہے اس نے متبادل انتظامات بھی کر لئے ہوں گے اور ایسا بندوبست کر رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو بھرپور جواب دے سکے۔ہاں اگر اسرائیل نے ایران کے ایٹمی سائٹس کو نشانہ بنایا تو تابکاری کے نتیجے میں غیرمعمولی نقصان ہوسکتا ہے۔اگرچہ امریکہ بار بار کہتا ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے نہیں دے گا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے اگر مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر زندہ ہوتے تو وہ بتا سکتے تھے کہ ایران نے کب ایٹمی ہتھیار تیار کئے تھے کیونکہ میزائل ٹیکنالوجی کے حصول میں ڈاکٹر صاحب نے ایران کی بھرپور مدد کی تھی۔بالفرض محال اگر ایران کو بقاءکا مسئلہ درپیش ہوا تو اسرائیل کو سمارٹ ایٹمی ہتھیاروں سے نشانہ بنا سکتا ہے جس کے بعد نہ صرف اسرائیل نیست و نابود ہو جائے گا بلکہ فلسطین لبنان شام اور اردن بھی تاکاری اثرات سے تباہ و برباد ہو جائیں گے ایسی صورت میں امریکہ ضرور بدلہ لے گا اور دوسری جنگعظیم کی طرح وہ اس بار بھی محفوظ رہے گا کیونکہ وہ حملوں کی رینج سے بہت دور ہے جبکہ ساری دنیا اس کی دسترس سے باہر نہیں ہے۔
دوسرا بڑا تنازعہ روس اور یوکرین کا ہے حیرت ہے کہ روس کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔اس صورتحال سے تنگ آکر صدر پیوٹن نے کئی بار ایٹھی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے خود روس کا یہ حال ہے کہ اس نے بیلسٹک میزائل اور ڈرون ایران سے حاصل کئے ہیں اگر روس نے ایٹمی ہتھیار استعمال کئے تو مشرقی یورپ تباہ ہوسکتا ہے اور ایک بار پھر دوسری جنگ عظیم کی صورتحال پیدا ہو جائے گی چونکہ امریکہ12 ہزار کلومیٹر دور بیٹھا ہوا ہے اس لئے اس کی قیادت میں تیسری جنگ عظیم بھی شروع ہو سکتی ہے۔اگر چین نے روس کا ساتھ دیا تو امریکہ ساؤتھ چائنا کا تنازعہ اٹھا کر چین کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ جنگ کا حصہ بن جائے چین بھی خطرناک اسلحہ بنا چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کی رینج امریکہ تک پہنچ جائے کم از کم شمالی کوریا کے میزائل تو وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔شمالی کوریا خطرناک ہائیڈروجن بم بنا چکا ہے جس کے استعمال سے قیامت آ جائے گی جو خطرناک تنازعات سر اٹھا رہے ہیں اس میں چھوٹے اور کمزور ممالک ناگفتہ صورت حال کی زد میں آ جائیں گے۔ہاتھیوں کی لڑائی میں بے شمار چونٹیاں کچلی جائیں گی۔اس وقت حالات کا دارومدار وزیراعظم نیتن یاہو اور ایرانی رہبر خامنہ ای کے ہاتھوں میں ہے۔اسرائیلی وزیراعظم ایک انتہاپسند جنونی ہے جبکہ ایرانی رہبر فہم و ادراک سے آراستہ ہیں۔اس لئے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو تباہی سے بچائیں۔نئی صورتحال میں جبکہ جنگ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ے تو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ نے ایران میں جنگ چھیڑ دی تو وہ پاکستان جیسے ممالک کو غیر جانب دار رہنے نہیں دے گا وہ ایران کے خلاف کارروائی کے لئے کئی سہولتیں طلب کر سکتا ہے اگر اسکے حملوں کا ہدف مرکزی ایران ہوا تو بچت ہوسکتی ہے اگر اس نے بلوچستان کے ساحل پر واقع ایرانی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا تو مشرقی بلوچستان بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔امریکہ چاہے بندر عباس پر حملہ کرے آبنائے ہرمز پر کرے یا چاہ بہار پر مشرقی بلوچستان کے حصے میں بھی تباہی ہو سکتی ہے۔فی الحال خدشہ یہ ہے کہ اسرائیل سی آئی اے کی مدد سے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی طرح ایرانی رہبر سید علی خامنہ ای کو ٹارگٹ کرے گا اسرائیل پر حالیہ حملوں کے بعد ایرانی رہبر خفیہ محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے ہیں لیکن اسرائیل نے بیروت میں جو امریکی کلسٹر بم استعمال کئے انہوں نے چھ منزلہ تہہ خانے کو تباہ کر دیا جس کی وجہ سے حسن نصراللہ کی موت ہوئی۔ایران کو حد درجہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔بلاشبہ ایران اس وقت مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا علاقائی طاقت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔