سرسبز و شاداب گدر اب بنجر کیسے؟

تحریر… سراج احمد ریکی

پاکستان میں اکثر لوگوں کا پیشہ زراعت سے وابستہ ہے اور ملک کے دیگر کاشتکار صوبوں میں سے ایک صوبہ بلوچستان ہے جو کاشتکاری میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے زراعت کے حوالے سے بلوچستان اندرونی ملک و بیرونی ممالک میں اپنی مثال آپ ہے زراعت کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے بلوچستان کو بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال بھی کر دیا ہیاور بلوچستان کے ستر سے پچتر فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہو کر اپنی زندگی بلوچی روایات کے مطابق اور قبائلی طور پر بسر کر رہی ہیں،میں ایک ایسے علاقہ کا ذکر کر رہا ہوں جو جھالاوان میں واقع ہے اور ضلع سوراب کے تاریخی و مشہور شہر ہے جو معاشرے میں گدر کے نام سے جانی جاتی ہے.ایک زمانے میں گدر ایک زرخیز زمین تھی وہاں کے بہت سے علاقے کاشتکاری کے حوالے سے ملک میں ایک بہترین پہچان رکھتے تھے خاص کر اس وقت گدر کے بالائی علاقے جو ملک بھر کے منڈیوں میں ایک الگ پہچان رکھتے تھے اور بہار کا منظر پیش کرتے تھے، اس زمانے میں گدر کے نوے فیصد لوگ زمینداری سے وابستہ تھے ان علاقوں میں چلبغو،فارم،شوری،ریکیزئی، مٹ،ٹوبہ جو،پھٹ،کلغلی،شانہ،رودینی،پیر حیدر شاہ،ستانی،ہتھیاری،کیازئی،ملازئی اور چھڈ کے نام سے کئی علاقے شامل تھے جہاں پر مختلف اقسام کے پھل و فروٹ کے باغات تھے اور سبزیاں بڑی مقدار میں تیار ہوتی تھی، سبزیوں میں کدو،بیگن،گوبھی،آلو،مٹر،ٹماٹر، پیاز،پالک سمیت دیگر سبزیاں شامل تھے جبکہ پھلوں میں،انگور، زردالو،آڑو، سینٹ روزہ اور سیب کے بہت سے اقسام تیار ہو کر گڈز کے زریعے ملک کے کونے کونے تک کے مارکیٹوں میں پہنچ جاتے تھے اس وقت گدر میں تمام مشینیں جنریٹرز پر چلتی تھی کیونکہ کہ علاقے میں بجلی کا نام و نشان تک نہیں تھا1992ء کے دور میں گدر میں بجلی کی نظام کو بحال کردیا گیا تو زمینداروں نے اپنی مشینوں کو بجلی پر شفٹ کر لیا عوام ایک خوش حال زندگی گزار رہی تھی کہ ایک ایسا وقت آیا کہ جب مسلسل خشک سالی آٹھ سالوں تک برقرار رہی تو زمینی سطح پر پانی کی سطح گرتی گئی اور آہستہ آہستہ سرسبزوشاداب علاقہ گدر اچانک ایک بنجر میں تبدیل ہوگئی اس کی سب سے بڑی وجہ علاقے میں ڈیمز کی کمی تھی جو کہ خشک سالی سے پہلے بارشیں ہوئی تھی لیکن بارش کی پانی کو کور کرنے کے لیے کوئی ڈیم نہ تھا اس کے باعث پانی کی زمینی سطح پر تیزی سے کمی ہوئی. جس سے علاقے میں پانی کا بحران ہو گیا تھا کچھ ایسے علاقے بھی تھے جہاں کے لوگوں کو پینے کے پانی کے حصول کے لیے کئی مشکلات درپیش تھی تو وہ لوگ مجبوراً صاف پانی کے حصول کے لیے نقل مکانی کرنے شروع کر دی تھی جو کہ موجودہ وقت میں گدر کے نصف آبادی ویرانی میں تبدیل ہو گئی ہے، یہ ساری نظام میں اس وقت دیکھا جب میں علاقے میں پانی کے حوالے سے رپورٹ بنانے گدر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو کچھ ایسے علاقے مجھے ملے جہاں کے مکانات ویران ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی تھی کوئی بندہ بھی نہیں ملا مجھے جو مجھے اس کلی کے معلومات دیں خیر بل آخر میں نے ویران جگہوں کی معلومات کسی نہ کسی طریقے حاصل کر کے دل میں ارمان لیے اپنی گھر کی طرف روانہ ہو گئی اب ہروقت مجھے وہی لمحات رلا دیتی ہیں کہ گدر پہلے دور میں کیسا علاقہ تھا اب بنجر میں تبدیل کیوں ہوگئی آخر کیوں..؟ آپ مجھے بتائیں اس سارے نظام کے ذمہ دار کون ہے..؟
کیا گدر کے رہائشی ہیں..؟
یاکہ سیاسی لیڈران….؟
خدارا سوچیئے نسل نو کی خاطر،گدر کے مستقبل کی خاطر سوچیئے گدر کے علاقوں میں پانی کی زمینی سطح میں دن بہ دن تیزی سے کمی ہو رہی ہے کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ڈیمز نہ ہونے کے سبب شاید کچھ عرصے بعد ان علاقوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر جائے…حکومت وقت کو چاہیئے کہ گدر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں ڈیمز بنایا جائے تاکہ کل کو ہمارے آنے والے نسل کو پینے کے لیے ایک گلاس صاف پانی میسر ہو..مجھے بے حد خوشی ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ موجودہ دور میں علاقہ گدر کے مختلف ایریاز میں بہت سے ڈیمز بنائے گئے ہیں جو کہ گدر کی تاریخ میں پہلا اور ایک مثبت قدم ہے اور اس قدم کو داد دینی چاہیے گوکہ یہ ڈیمز سیاسی مفاد میں بنائے گئے ہیں یا پھر عوامی، اجتماعی یا علاقائی مفاد میں اس کا فیصلہ تیس سال بعد آنے والے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن گدر میں اگر آج سے پندرہ سال پہلے ڈیمز بنائے جاتے تو شاید آج گدر ایک خوبصورت،حسین، سبز و شاداب والے پہلا علاقہ ہوتا اور گدر کی تقدیر یکسر بدل جاتا واضح رہے کہ کے پی کے میں ایک ایسا ہی حلقہ تھا وہاں پہ ایسی صورتحال تھی جیسا کہ ہمارا علاقہ ہے تو وہاں کے لوگوں نے ڈیمز کے لیے بھر پور مطالبہ کیا اور اپنے حاکم وقت سے ڈیمز بنوائے گئے میرے علم کے مطابق وہی علاقہ آج سرسبز و شاداب وہاں کے مقین ایک پرسکون اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اب حال یہ ہے کہ گدر میں چالیس فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہیں اور بقیہ حصہ اس سہولت سے محروم ہیں…

اپنا تبصرہ بھیجیں