خیبرپختونخوا کا قرض ایک سال میں 149 ارب روپے بڑھ کر 680 ارب روپے تک پہنچ گیا
پشاور(صباح نیوز)کے پی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے بین الاقوامی قرض دہندگان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اصلاحی اقدامات متعارف نہ کروائے گئے تو مارچ 2025 کے بعد بھی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا،ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ صوبے کی حکومتی قیادت اپنی مالیاتی ٹیم کے مشورے پر کام کرنے، دہشت گردی کے واقعات اور بے امنی سے متاثر صوبے کی آبادی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دینے کے بجائے سیاسی مسائل، بالخصوص وفاقی دارالحکومت میں بار بار نکالی جانے والی ریلیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔خیبرپختونخوا کے محکمہ خزانہ نے اپنے تازہ ترین قرضوں کے اعداد و شمار کے بلیٹن میں اعتراف کیا کہ 30 جون 2024 تک واجب الادا قرضوں کا پورٹ فولیو بڑھ کر 679.547 ارب روپے ہو گیا، جو 30 جون، 2023 تک 530.723 ارب روپے کی بقایا رقم سے 28.04 فیصد (تقریبا 149 ارب روپے) اضافہ ہے،اس بگاڑ کی وجہ دو اہم عوامل ہیں، جن میں خالص وصولیوں میں 14.31 فیصد اضافہ (75 ارب 90 کروڑ 68 لاکھ روپے) ہوا اور زر مبادلہ کی شرح بڑھنے سے روپے کی قدر اس عرصے میں 13.73 فیصد گرگئی،باخبر ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی قرض دہندگان نے کے پی حکومت کے لیے پریشانی کا اشارہ دیا ہے، پاکستان کی تیسری سب سے بڑی صوبائی معیشت ہونے کے باوجود صوبے کی معاشی نمو ناقص رہی ہے،بین الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات میں کمزور عوامی مالیاتی انتظام، محدود آمدنی کی پیداوار، وفاقی منتقلیوں پر زیادہ انحصار اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافے جیسے عوامل شامل ہیں،ایک ماہر اقتصادیات نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان خدشات نے عالمی قرض دہندگان کو کے پی حکومت کے ساتھ معاملات کرتے وقت احتیاط کا اظہار کرنے پر مجبور کیا ہے۔