پارلیمانی سیاست غیر موثر ہوگئی، بلوچستان کا مسئلہ بات چیت سے آگے نکل چکا، اختر مینگل

خضدار (بیورو رپورٹ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بات چیت سے آگے نکل چکا ہے،میری ذاتی رائے میں پارلیمانی سیاست غیر موثر ہو گئی ہے تا ہم پارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ ہم پارلیمانی سیاست کو جاری رکھیں گے یا نہیں، بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی اب جس کی رٹ قائم ہے یہ سب کو معلوم ہے،بلوچ کے لئے جدوجہد کرنے والی تمام قوتوں کو ماضی کے تلخ تجربات متحد ہونے نہیں دیتی،پاکستان کا دوسرا نام پنجاب ہے،کے پی اور بلوچستان پنجاب کی کالونیاں ہیں،سندھ کو بنجر بنا کر چولستان میں مقتدر قوتوں کی اراضیات کو پانی فراہم کرنے کے لئے نہریں نکالی جا رہی ہے،زرداری کا پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس سے خطاب آنے والی بجٹ میں اپنے حصے کو بڑھانے کی ایک کوشش ہے،پارلیمنٹ میں ہماری باتوں پر سنسر لگائی گئی تھی اب پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھٹو جمہوری لیڈر ہوتا تو ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ نہیں لگاتا۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ وڈھ پر خضدار کے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں سردار اختر جان مینگل نے خضدارپریس کلب کے صحافیوں کے لئے افطار ڈنر کا اہتمام کیاگیا جس میں سردار اسد اللہ مینگل،میر گورگین مینگل،ایم پی اے میر جہانزیب مینگل سمیت دیگر بھی شریک تھے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اب بلوچستان کا مسئلہ کسی بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتا ہے اگر بات کی بھی جائے تو کس سے بات کی جائے؟یا کون بات کرنے کو تیار ہے؟مرکز ایک نہیں مختلف ہے،لیڈر شب بھی مختلف ہے،نقطہ نظر بھی مختلف ہے،ہر ایک کے فالورز الگ ہیں پارلیمانی سیاست کے حوالے سے سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر پارلیمانی سیاست کو اب غیرموثر سمجھتا ہوں کیونکہ پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت نہیں، مظلوم اقوام کے منتخب نمائندوں کی آواز وہاں دبائی جاتی ہے، میرے بولنے پر پابندی لگائی گئی تھی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آگے چل کر بی این پی پارلیمانی سیاست کرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ مجموعی طور پر پارٹی کے اداروں نے کرنا ہے جو پارٹی ادارے فیصلہ کرینگے وہی ہماری پالیسی ہوگی، بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اب کس کی رٹ قائم ہے یہ دنیا جانتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم حکومت کی رٹ بلوچستان میں قائم نہیں، نوجوان لشکروں کی شکل میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ زہری، اورناچ، منگچر، بولان اس کی مثالیں ہیں، آج بلوچستان میں پاکستان کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے اس کے پیچھے مظالم کی ایک طویل داستان ہے، بلوچستان میں ایسا کوئی گاﺅں، گھر نہیں جہاں کے لوگ ان مظالم کا شکار نہیں ہوئے ہوں، دودھ پیتے بچوں کے والداٹھائے گئے، اب وہ بچے جوا ن ہو گئے ہیں مگر ان کے والد اپنے گھروں کو نہیں پہنچ سکے ہیں ایسی صورتحال میں نوجوانوں سے خیر کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بلوچ قوتیں متحد کیوں نہیں ہوتیں کے جواب میں سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ذاتی اختلافات کو سیاست میں لاتے ہیں بلوچ کی یہ بد قسمتی ہے کہ بلوچ اپنے ذاتی اختلافات کو قومی مفادات کے لئے قربان نہیں کرتا اور یہی چیزمتحد ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات ہمیں متحد ہونے نہیں دیتے ایک سوال کے جواب میں سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ تجربات اور مشاہدات سے یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان کا اصل نام پنجاب ہے اور بلوچستان و خیر پختوانخوا اس کی کالونیاں ہیں، کالونیوں کے ساتھ پنجاب نے جو کرنا ہے وہ کررہا ہے، اب دیکھیں سی پیک بلوچستان کے نا م سے جڑا منصوبہ ہے مگر اس کے ثمرات بلوچستان کے لوگوں کے بجائے پنجاب کے لوگوں کو مل رہے ہیں یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جو موجودہ صورتحال کا باعث بن گئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے عوام بھی مظلوم ہیں سندھ کے لوگوں کا معاشی انحصار زراعت پر ہے مگر اب سندھ کو پنجر بنانے کے لئے دریائے سندھ سے پنجاب چولستان کے لئے نہریں نکال رہی ہے چولستان میں طاقتور قوتوں کو اراضیات الاٹ کی گئی ہے انہیں آباد کرنے کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر افسوس سندھ کے لیڈر شب اس مسئلے پر خاموش ہے صدر زرداری کا پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی خطاب کے متعلق بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جب بجٹ قریب آتا ہے تو زرداری بجٹ میں اپنا یا سندھ کا حصہ بڑھانے کے لئے ایسی چال چلتے ہیں موجودہ خطاب میں بھی وہ بجٹ میں حصہ بڑھانے کے لئے یہ موقف اپنا یا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بولنے پر پابندی تھی ہی اب پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں کو بھی پابند کردیا گیا۔ افغان معاجرین کے انخلا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کا انخلاءاچھی بات ہے مگر پاکستانی حکومت یہ اقدام افغانستان کو بلیک میل کرنے کے لئے اٹھا رہی ہے بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات ان نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ فارم 47 کے منتخب کردہ یہ کہتے ہیں کہ اسمبلی اجلاس کو ویڈیو لنگ کے ذریعے چلایا جائے عوامی مفادات کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو عوام کی ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں بد قسمتی سے یہاں اکثریت فارم47 والوں کی ہے فارم 47 والے جو صوبائی اسمبلی میں ہوں یا قومی اسمبلی میں وہ عوامی مفادات کے لئے کام کرنے کے بجائے الیکشن کے وقت جو سرمایہ لگائے تھے انہیں کمانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

Logged in as Bk Bk. Edit your profile. Log out? ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے