بلوچ طلبا استحصال تلے
قیوم بُزدار
بلوچستان میں شورش اپنی عروج پرتھی،ہرطرف مسخ شدہ لاشیں ملنا معمول بن چکی تھیں گوکہ اب بھی ملتی ہیں لیکن پہلے کی نسبت کم اور نوجوانوں کو لاپتا کرنے کا سلسلہ عروج پرتھا گوکہ اب بھی ہے مگرپہلے کی نسبت کمی ضرور آئی ہے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں میں پنجاب کے خلاف نفرت کااظہاریہ بام عروج پرتھا ،عوام وفاقی حکومت سےخائف تھا ان حالات میں حکومت نے بلوچستان میں حالات کو معمول پرلانے کےلیے آغازحقوق بلوچستان پیکچ کا اعلان کیا اور ثقافتی تبادلے ہوئے جن میں بلوچستان کے طلبا کا پنجاب کے طلبا سے میل ملاپ کروانے کی کوشش کی گئی ،بحث مباحثے ہوئے،مکالمہ ہوا تاکہ بلوچستان اور پنجاب کےدرمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کیاجاسکے اور اسی خلیج کو دور کرنے کےلیےحکومت نے بلوچستان کے طلبا کو مفت تعلیم دینے کااعلان کیا جس کےخاطرخواہ نتائج مرتب ہوئے جس سے بلوچستان میں ایک تو تعلیمی پسماندگی کا ازالہ کسی حدتک ہوا اور دوسرا پنجاب کےخلاف بڑھتی ہوئی نفرت میں بھی کمی آئی
مگر افسوس کی بات ہےکہ بہاوالدین زکریایونیورسٹی حکومت کی اس پالیسی سے مسلسل روگردانی کررہی ہے اور اس پالیسی کے خلاف جاچکی ہے واضح رہےجیساکہ آپ کےعلم میں ہے دوسال پہلے بلوچستانی طلبا کے اوپن میرٹ پرمفت تعلیم دینے کی سہولت کوبغیر دفتری اطلاع نامہ کے ایڈمیشن ڈیٹ تک ملتوی کیا گیااور داخلہ کا تاریخ گزرجانے کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کیاگیا
آج بعینہ وہی حکمت عملی جاری ہے ، افواہیں پھیلائی جارہی ہیں ،زبانی کلامی بات کی جارہی ہے اور اخباری بیانات دی جارہی ہیں کہ کوٹا توہے مگر ہم طلبا سے فیس لیں گے ۔۔!!!
مگر دوسرے دن اخبار کاپنا کھولتے ہیں توکہا جاتاہے کوٹا تو ہے ہم نےاسےآن لائن کیاہے اور میرٹ پربلوچستانی طلباکوداخلہ دیں گے ۔۔
تیسرے دن صاحب کاموڈخراب ہوتا ہے ہم توفیس لیں گے ہماری یونیورسٹی خسارے میں جارہی ہےآپ کی وجہ سے ہمیں سترہ کڑورکاخسارہ ہوا۔۔!!!
لیکن کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کویہ توفیق خدا نے نہیں بخشی کہ وہ نوٹیفیکیشن جاری کرکے طلبا کواطلاع کردیتے کہ ہم نے مفت تعلیمی پالیسی ختم کی اور مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ۔۔!!!
لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی وہی پرانی سیاست کھیلی کہ جونہی داخلہ ڈیٹ گزرجائیں گےتو ہم اسے ظاہرکریں گےتاکہ کوئی چھوٹی سی امیدکی کرن ان کی آنکھوں میں روشنی کی عکس بن کر نہ ٹمٹائے بلکہ ہمیشہ کےلیے مفت تعلیم کے دروازے بلوچستانی طلبا پرختم کیے جائیں
کیونکہ بلوچستان کےلوگ نہایت مفلوک حال ہیں وہ ملتان کا خرچہ نہیں برداشت کرسکتے ہوسٹل اورداخلہ فیس کجا کچھ لوگ تو دووقت کی روٹی کا مشکل سے خرچہ اٹھاتے ہیں ویسے بھی کوئی طالب علم فیس ہونے پرملتان کارخ نہیں کرے گا کیونکہ کون پاگل ہوگا جو گوادرسے دودن مسافت پرواقع ملتان میں پڑھنے کےلیے آئے تو ان کےلیے زیادہ بہتر کراچی ہوگی تووہاں جائیں گےاور ہاں!!جن کےپاس پیسے ہوں گے وہ جائیں گے۔۔۔!!!
اوران سیٹوں پرفیس کےلاگوہونےسے بلوچستان میں سماجی ،تعلیمی اورسیاسی افق پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے جس کاذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ ہوگی ،حکومت ہوگی
جہاں اس فیصلےسے بین الصوبائی ہم آہنگی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگی وہی اس سے بلوچستان میں تعلیمی افق پر بھی سنگین نتائج مرتب ہوں گے
کیونکہ اس یونیورسٹی سےہرسال ۱۴۰ سےزائدبلوچ فارغ التحصیل ہوکر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں وہی شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔۔
اگر مفت تعلیم کی پالیسی ہٹالی گئی تواس سے بلوچستان جہاں یونیورسٹیز کی کمی ہے بہت سے مستحق اورغریب طلبا پڑھنے سے رہ جائیں گے وہی بین الصوبائی مکالمہ بھی اپنی موت آپ مرے گی جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یونیورسٹی کےدروازے ہمیشہ کےلیےبلوچ طلبا کےلیے بندکیے جارہے ہیں توبےجا نہ ہوگا
اس لیے!!اب بھی وقت ہےیونیورسٹی انتظامیہ اپنے اس فیصلے پرنظرثانی کرے اور بلوچ طلبا کو مفت پڑھانے کی پالیسی کوجاری رکھے تاکہ تعلیمی خلا وقوع پذیرنہ ہو اور لوگ ایک دوسرے کوجان سکیں
لہذا!! میں اس تحریر کی توسط سے حکومت اورسیاسی جماعتوں سےاستدعاکرتاہوں کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرکے بلوچستان کے بہتر مستقبل اور سویرا تراشنے کےلیے بلوچستانی طلباکاکمک کرے اور مفت تعلیم کی پالیسی کو برقرار رکھنے میں اپنی دلچسپی دکھائے