آرمینیا اور آذربائیجان جھڑپیں جاری، علاقے پر کس کا حق ہے؟
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے متنازع خطے میں جھڑپوں میں دونوں جانب سے درجنوں فوجیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔
آرمینیا میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ جھڑپیں شروع ہونے کے بعد آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے کہا کہ وہ اس خطے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہیں تاہم آذربائیجان کے کچھ علاقوں میں بھی مارشل لا کا اعلان کیا گیا ہے۔
آرمینیا نے آذربائیجان پر فضائی اور توپ خانوں سے حملوں کا الزام لگاتے ہوئے آذربائیجان کے ہیلی کاپٹر گرانے اور ٹینک تباہ کرنے کی اطلاعات دی ہیں جبکہ آذربائیجان نے کہا ہے کہ اس نے گولہ باری کے جواب میں کارروائی شروع کی۔
جنگ اور دونوں جانب سے نسلی بنیادوں پر تشدد کے نتیجے میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور کم از کم دس لاکھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا محور ناگورنو قرہباخ نامی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے 80 اور 90 کی دہائی میں خونریز جنگیں ہو چکی ہیں۔
دونوں ممالک جنگ بندی پر تو اتفاق کر چکے ہیں لیکن کسی امن معاہدے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
سویت یونین کے زمانے میں ناگورنو قرہباخ ایک ایسا خطہ تھا جہاں آرمینیائی نسل کے باشندوں کی اکثریت تھی لیکن وہ آذربائیجان کے حکام کے زیرِ انتظام تھا۔ سب 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں سویت یونین اپنے خاتمے کے قریب پہنچنا شروع ہو گیا تو ناگورنو قرہباخ کی مقامی پارلیمنٹ نے اس علاقے کو آرمینیا کا حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔
جس کے بعد نسلی فسادات شروع ہو گئے اور آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے باقاعدہ طور پر ماسکو سے آزادی کے اعلان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بھرپور جنگ شروع ہو گئی۔
اس جنگ اور دونوں جانب سے نسلی بنیادوں پر تشدد کے نتیجے میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور کم از کم دس لاکھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
سنہ 1994 میں روس کی کوششوں کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی سے پہلے ناگورنو قرہباخ مکمل طور پر آرمینیائی افواج کے کنٹرول میں آ چکا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں یہ طے ہوا کہ ناگورنو قرہباخ آذربائیجان کا ہی حصہ رہے گا لیکن اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہو گا جنھیں آرمینیا کی حکومت کا تعاون حاصل ہے۔
اس کے بعد سے کئی مرتبہ امن مذاکرات ہو چکے ہیں۔ سنہ 1992 میں بنایا گیا ایک بین الاقوامی گروپ ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے جس میں فرانس، روس اور امریکہ کا مرکزی کردار ہے۔ تاہم ابھی تک یہ ممالک کسی امن معاہدے تک پہچنے میں ناکام رہے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ سنہ 2016 میں ان جھڑپوں میں تیزی آئی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درجنوں فوجی ہلاک ہوئے۔
یہ تنازع علاقائی سیاست کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ نیٹو کے رکن ملک ترکی نے سنہ 1991 میں آزربائیجان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ آزربائیجان کے سابق صدر حیدر علییف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ‘ہم دو ریاستوں والی ایک قوم ہیں۔’
دوسری جانب آرمینیا کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ روس کا ایک فوجی بیس بھی آرمینیا میں ہے۔ اس کے علاوہ روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہیں جس کا نام ‘ کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن’ سی ایس ٹی او ہے۔
یہ تنازع علاقائی سیاست کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ نیٹو کے رکن ملک ترکی نے سنہ 1991 میں آزربائیجان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ آزربائیجان کے سابق صدر حیدر علییف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ‘ہم دو ریاستوں والی ایک قوم ہیں۔’
دوسری جانب آرمینیا کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ روس کا ایک فوجی بیس بھی آرمینیا میں ہے۔ اس کے علاوہ روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہیں جس کا نام ‘ کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن’ سی ایس ٹی او ہے۔
حالیہ جھڑپیں شروع کیسے ہوئیں؟
آرمینیا کی وزارت دفاع نے آذربائیجان پر متنازع علاقے میں آباد عام لوگوں کی بستیوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
حکام کے مطابق ایک خاتون اور ایک بچہ ہلاک ہو گئے ہیں۔ ناگورنو قرہباخ میں علیحدگی پسند حکام نے بتایا کہ ان کے 16 فوجی ہلاک جبکہ 100 زخمی ہوئے ہیں۔
آذربائیجان کی جانب سے جاری کردہ تصاویر جن کے مطابق آرمینیا کی بکتر بند گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے
آرمینیا کے وزیراعظم نکول پاشنيان نے آذربائیجان پر جارحیت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے عظیم وطن کے دفاع کے لیے تیار ہو جائیں۔
انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطہ ایک ’بڑے پیمانے پر جنگ‘ کے دہانے پر ہے۔ وزیراعظم نکول پاشنيان نے ترکی پر ’جارحانہ طرز عمل‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مزید عدم استحکام کو روکنے کے لیے متحد ہو جائیں۔
آزربائیجان کے استغاثہ کے مطابق آذربائیجان کے ایک گاؤں پر آرمینیا کی گولہ باری سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔آذربائیجان کی وزارت دفاع نے ایک ہیلی کاپٹر کے گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں عملہ محفوظ رہا ہے تاہم ارمینیا کے رپورٹ کردہ دوسرے نقصانات کی تردید کی ہے۔ آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیا کے 12 فضائی دفاعی نظام تباہ ہونے کی بھی اطلاعات دی ہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے کہا ہے کہ انھوں نے آرمینیائی فوج کے حملوں کے جواب میں بڑے پیمانے پر کارروائی کا حکم دیا ہے۔
ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جوابی کارروائی کے نتیجے میں آذربائیجان کے متعدد رہائشی علاقوں کو، جنھیں قبضے میں لیا گیا تھا، آزاد کرا لیا گیا ہے۔‘
’مجھے یقین ہے کہ ہماری کامیاب جوابی کارروائی اس ناانصافی اور 30 سالہ طویل قبضے کو ختم کر دے گی۔‘
دوسری جانب آرمینیا کی وزارت دفاع نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ کوئی گاؤں ان کے قبضے سے چلا گیا ہے۔
جھڑپیں شروع ہونے کے بعد آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے کہا کہ وہ اس خطے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہیں
اتوار کے روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس نئے بحران میں آذربائیجان کی حمایت کا وعدہ کیا جبکہ روایتی طور پر آرمینیا کے اتحادی کے طور پر دیکھے جانے والے روس نے فوری طور پر جنگ بندی اور صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کیا۔
فرانس نے، جہاں آرمینیائی باشندوں کی ایک بڑی کمیونٹی موجود ہے، فوری طور پر جنگ بندی اور بات چیت کا مطالبہ کیا جبکہ ایران نے امن مذاکرات کی پیشکش کی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔