امریکی صدارتی انتخاب؛ جو بائیڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل

واشنگٹن: امریکا میں 59 ویں صدارتی انتخاب کےلیے ووٹنگ مکمل ہوجانے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے جس میں جو بائیڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ امریکی صدر 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ اور 77 سالہ ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن میں کانٹے کا مقابلہ جاری ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تک 213 الیکٹورل ووٹس حاصل کرچکے ہیں جب کہ مخالف امیدوار جو بائیڈن 224 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل حاصل کرچکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، الیکٹورل ووٹس کے اعتبار سے اگرچہ بائیڈن کو برتری حاصل ہے لیکن اگر عوامی ووٹوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بائیڈن اور ٹرمپ کو حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف ایک فیصد کا فرق ہے۔ امریکا میں مجموعی طور پر 538 الیکٹورل ووٹس ہیں جن میں سے 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے والا امیدوار فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

77 سالہ ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن کو ریاست کیلی فورنیا نیویارک، ایلےنوئے، رہوڈ آئی لینڈ، میساچوسٹس، نیوجرسی، میری لینڈ، کونیکٹی کٹ، ڈیلوئیر، اوریگان، واشنگٹن میں برتری حاصل ہے جب کہ وائیومنگ، نارتھ ڈکوٹا، نبراسکا، آرکنساس، مسی سپی، اوکلاہوما، الاباما، ٹینیسی، جنوبی کیرولائنا، میزوری اور یوٹاہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیابی حاصل کرچکے ہیں تاہم حتمی کامیابی کے لئے سوئنگ اسٹیٹس کا کرداراہم ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پولنگ بند ہونے کے بعد ووٹ کاسٹ نہیں ہوسکتے، وہ انتخابات چوری کرنے کی کوشش کر رہے تاہم ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، میں آج رات بیان دوں گا اور وہ ایک بڑی جیت ہے۔دوسری جانب صدارتی امیدوار جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ہم فتح کی جانب بڑھ رہےہیں، یقین رکھیں ہم فتح یاب ہوں گے۔

سرِدست امریکی صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کی فیصلہ کن فتح کا انحصار ’’سوئنگ اسٹیٹس‘‘ پر ہے، جن میں سے بیشتر کے حتمی نتائج ابھی تک موصول نہیں ہوئے ہیں تاہم ایگزٹ پول سے پتا چلتا ہے کہ 168 الیکٹورل ووٹس والی ان امریکی ریاستوں میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہے جو اگلے چند گھنٹوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔

گزشتہ صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ 58.1 فیصد تھا جبکہ اس مرتبہ امید ہے کہ یہ 60 فیصد کے آس پاس ہوسکتا ہے، اگر اتنی تعداد میں امریکی عوام ووٹ دیں گے تو یہ ممکنہ طور پر ایک صدی میں سب سے بڑی تعداد ہوگی۔

امریکا صدارتی انتخابات میں ریاستوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ امریکا میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹی انتخابی میدان میں مدمقابل ہوتی ہیں۔ جس پارٹی کے ریاست میں زیادہ ووٹ ہوتے ہیں اس ریاست کو اسی پارٹی کے رنگ سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لیے ڈیموکریٹ کی حامی ریاستیں بلیو اور ری پبلکن کی حامی ریاستیں ریڈ اسٹیٹس کہلاتی ہیں۔

الباما، آرکنساس، اڈاہو، انڈیانا، کینٹکی، لوزیانا، مسیسپی، نبراسکا، شمالی ڈکوٹا، اوکلاہوما، جنوبی کیرولائنا، جنوبی ڈکوٹا، ٹینیسی، یوٹا، مغربی ورجینیا، ویئومنگ، الاسکا، کنساس، مسوری، مونٹانہ اور ٹیکساس ریڈ اسٹیٹس ہیں۔

کیلی فورنیا، کولوراڈو، کنیکٹی کٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، مین، میری لینڈ، میسا چیوسیٹس، نیو جرسی، نیو میکسیکو، نیویارک، اوریگن، روڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، ورجینیا، واشنگٹن، ایریزونا، مشی گن، منیسوٹا، نیواڈا، نیو ہیمپشائیر، پینسلوینیا اور وسکونسن کا شمار بلیو اسٹیٹس میں کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ صدرٹرمپ یا جوبائیڈن کو صدارت سنبھالنے کے لیے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت ہے، پولنگ کے مکمل نتائج آنے اور ان کے حتمی سرکاری اعلان کے لیے رواں سال 14 دسمبر کی تاریخ رکھی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں