سنجیدگی سے حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت

کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں کوئی حتمی پیش گوئی ممکن نہیں،امریکہ، برطانیہ،جرمنی، زمبابوے اور بھارت سمیت بعض ملکوں میں صورت حال تاحال پریشان کن ہے۔دنیا میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے اٹھا رہ لاکھ ہو چکی ہے۔برطانیہ میں مسلسل چھٹے روز 54ہزار سے زائد نئے کیسز سامنے آئے۔بھارت میں (آکسفورڈ اور مقامی کمپنی کی تیار کردہ) دو ویکسینز کے استعمال کی منظوری دی ہے۔اتنی پریشان کن نہیں مگر اسکولوں کی بندش سمیت بعض کاروباری سرگرمیاں متأثر ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بھی جلد ہی مرحلہ وار ویکسین استعمال کا آغاز ہو جائے گا۔ا س دوران ماضی کے مقابلے میں ماسک کا استعمال بہتر ہونے لگا ہے۔ہلکے پھلکے حکومتی اقدامات کا اثر بھی ہوا ہے۔توقع ہے کہ کورونا پر بھی اسی طرح قابو پا لیا جائے گا جیسے، چیچک، ٹی بی، ملیریا جیسی مہلک بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہے۔اس میں شک نہیں کہ میڈیکل سائنس نے حیرت انگیز ترقی کر لی ہے اس کے باوجود کورونا وائرس کی تیاری میں سال لگ گیا۔اب بھی خطرہ ٹلا نہیں، کورونا کی دوسری اور تیسری لہر سامنے آگئی ہے۔احتیاط کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔سادہ سی شرط ہے: گھر سے نکلتے اور ہجوم میں جاتے وقت ماسک پہن لیا جائے۔ دکاندار بھی باقاعدگی اور پابندی سے استعمال کریں۔اَللہ رحیم ہے، غفور ہے مگر اصولی غلطیاں معاف نہیں کرتا، غزوہئ احد کی درہ چھوڑنے والی غلطی ہمیشہ یاد رکھیں،محمد ﷺ کی موجودگی کے باوجود غلطی کی سزا ملی۔زہر خورانی کا نتیجہ موت کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ڈیم تعمیر نہ کرنے کی سزا سیلاب کی تباہ کاری اور قحظ سالی کی شکل میں ملتی ہے۔آبادیاں نقل مکانی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ انسان اور جانور مر جاتے ہیں۔لیکن جو حکومتیں بروقت سنجیدگی کامظاہرہ اوردرست منصوبہ بندی کرلیتی ہیں وہاں عوام بے بسی سے موت کے منہ میں نہیں جاتے۔مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے،چین کی مثال موجود ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتداء میں اسے چین تک محدود ایک علاقائی بیماری سمجھا اور جی بھر کے مذاق اڑایا،پھر جب یہ بیماری امریکا پہنچی تو کہا یہ نزلہ زکام جیسی ہے، ماسک نہ پہننا بہادری قرار دیا۔اس احمقانہ رویہ کا نتیجہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، ساڑھے تین لاکھ سے زیاددہ امریکی کورونا کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ممکن ہے ان کے دور حکومت میں (19جنوری تک) یہ تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہو۔ پاکستان میں ابھی تک کورونا نے اتنی تباہی نہیں مچائی،ہلاکتوں کی تعداد10ہزار کے لگ بھگ ہے، لیکن پاکستانی عوام بد احتیاطی سے باز نہ آئے تو بڑی سزا کے لئے تیار رہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی لا پروائی، عدم توجہی، اور غلط ترجیحات کے نتیجے میں ملک بدترین اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ اربوں ڈالر غیر ملکی قرضوں کا سود بھی اربوں ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ موجودہ پاکستان 20 دسمبر 1971کو اس وقت دنیا کے نقشے پر ابھرا جب ڈھاکہ فال کے بعد جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اقتدار ایک منتخب رکن قومی اسمبلی ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کیا۔غیرمعمولی حالات میں ایک سویلین کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تسلیم کیا گیا،14اگست 1973کو ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکا عہدہ چھوڑ دیا اور وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔لیکن انہیں اس عوامی عہدے سے معزول کرکے جنرل محمدضیاء الحق نے5جولائی1977کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔ واضح رہے بطور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صرف3سال10ماہ اور21دن حکومت کی۔اس کے بعد جو کچھ ہوا تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔اپوزیشن خودتسلیم کرتی ہے کہ اس نے (ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر)چار دہائیوں تک مسلسل فوج کی مدد سے حکمرانی کی۔ 2018میں بھی بقول شہباز شریف انتخابات سے پہلے فوج کی مشاورت سے انہوں نے ایک کابینہ تشکیل دے رکھی تھی،اور اس کابینہ کی فہرست شہباز شریف کی جیب میں تھی۔اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ فوج(یا ایسٹبلشمنٹ) سے مشاورت اور اس کے کہنے پر”فلاں کو وزیر“ بنانا2018میں بھی شریف فیملی اور ان کے اتحادیوں کو منظور تھا۔ناراضگی اس وقت پیدا ہوئی جب سلیکٹرز نے پرانی ٹیم کی جگہ،اس سے مشاورت کئے بغیر،ایک ”اجنبی ٹیم“ سلیکٹ کرلی۔یہ ناراضگی بدستور برقرار ہے۔ یہ بات پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت عوامی اجتماعات میں بیان نہیں کرتی۔انہیں ڈر ہے کہ عوام اس خبرکے بعد ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ان کا خوف بے جا نہیں، موجودہ اپوزیشن جانتی ہے، اس نے 2018کے بعد بھی ایسٹبلشمنٹ کے مشوروں کے مطابق کردار ادا کیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی ایک بدنما مثال ہے جبکہ آرمی چیف کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر مطلوبہ قانون سازی میں اختیار کردہ رویہ آج بھی بھاری پردوں تلے دبا ہے۔اپوزیشن کوئی معقول وجہ بتانے سے قاصر ہے۔اپوزیشن کو یاد رہے کہ 20دسمبر1971سے پہلے کا جواب اس سے پہلے کی اپوزیشن (اور ایسٹبلشمنٹ)سے مانگا جائے،لیکن 5جولائی 1977 کے بعد کی غلطیوں کا حساب موجودہ اپوزیشن (اور ایسٹبلشمنٹ)سے مانگا جانا چاہیئے۔جنرل محمد ضیاء الحق کو طویل عرصے تک انتخابات نہ کرانے کا مشورہ نو ستاروں کی قیادت نے دیا تھا،اور بعد میں شریف فیملی بھی اسی قافلے میں شامل ہو گئی تھی۔عوام کے سامنے مولانا فضل الرحمٰن ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال آزادی مارچ ایسٹبلشمنٹ کی مشاورت سے شروع کیا تھا اور اسی کے وعدے پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس آزادی مارچ اور دھرنے کا فائدہ نواز شریف نے اٹھایا، جیل سے لندن منتقل ہو گئے۔عوام سے پورا سچ بولا جائے۔ملک کو آئندہ ان غلطیوں سے محفوظ کرنے کے لئے ایک محضر نامہ تیار کیا جائے، اس پر گلی گلی جاکر شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ عوام کے دستخط لئے جائیں، پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے تاکہ اسے آئینی حیثیت ہو جائے۔1977کے بعد عوام سے بہت مذاق ہوچکا، مزید مذاق کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔عوام کے مسائل ہیں، عوام کو ان کی اونر شپ دی جائے۔عوام کو اس عمل میں شریک کیا جائے۔ 22 کروڑ عوام اور آئندہ نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کا اہم مسئلہ غیر سنجیدگی سے کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ سنجیدہ حکمت عملی بنائی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں