حقائق سے کتراتے ہوئے حکمران

میں وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے اکثر اخباری بیانات کو ان سے انکی میڈیا ٹیم کا منسوب کردہ سمجھ کر نظرانداز کردیتا ہوں۔جبکہ انکے ٹوئٹر اکاونٹ سے ٹوئٹ کو انکی اپنی سوچ، رہنمائی، پیار یا غصہ کا اظہار سمجھتا ہوں۔کل میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب وٹس ایپ پر وزیراعلی کے ٹوئٹر اکاونٹ کا ایک اسکرین شاٹ نظر سے گزار ا، جس میں انہوں نے ڈاکٹرز سے اظہار یکجہتی کیلئے عوام سے درخواست کی تھی۔اس کی تصدیق کیلئے مجھے وزیراعلی کے ٹوئٹراکاونٹ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو اور یہ اسکرین شاٹ جعلی ہولیکن جب مجھے یقین ہوا کہ اصلی ٹوئٹ ہے تو اندازہ ہوا شاید واٹس ایپ گروپ کہ کسی ممبر نے مشورہ دیا ہوگا کہ ملکی سطح پرمیڈیا میں یہی ٹرینڈ چل رہا لہذا نام شامل کرکیا جائے چونکہ ہمارے محترم وزیرِ اعلیٰ صاحب بیشتر سرکاری کاموں کے لئے بھی ٹویٹر کا سہارا لیتے ہیں۔ اس ٹوئٹ کے ذریعے عوام ایک آئیڈیا دیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آج رات نو بجے ہم سب اپنی بالکونیوں، چھتوں، اور کھڑکیوں میں آکر تالیاں بجائیں، اور اپنے موبائل فون کی روشنی ماریں تاکہ ہمارے ڈاکٹرز اور وہ جو اس وباء سے لڑ رہے ہیں، اْن کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔اب آپ یہ پڑھ کر بالکل سنجیدہ ہیں، توحضورِ والا۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ۔ یہ اچھوتا خیال شاید آپکو کسی خوبصورت صاف سْتھرامغربی مْلک سے ملا ہے، جہاں ایک مکمل فعال حکومتی نظام وجود رکھتا ہو جہاں پھولوں سے سجی بالکونیاں ہوتی ہیں، صاف شفاف کھڑکیاں ہوتی ہیں، ٹیریس اور اْنکی چھتیں ہوتی ہیں۔ سرجام۔ یہاں پہلے تو باکونی کا تصور ہی نہیں ہے، سوائے مسجد روڈ پے شری سناتن دھرم مندر سے مْلحق قدیم گرتے ہوئے مکان کے۔اس کے نیچے بھی شیدے پکوڑے والے نے اس قدر دھواں کر رکھا ہے کہ بالکونی پوشیدہ ہوچْکی۔ اوّل تو اکثر مکانوں کی کھڑکیاں ہی نہیں، اگر ہیں بھی تو راجہ کھڑک سِنگھ کے زمانے کی۔ جو کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی رہتی ہیں، پھر گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ہم نے کھڑکی کھول کے لائٹ ماری تو سامنے والا گْل خان لاٹھی لے کے جان سے مارنے کو آئے گا کہ تْم نے چادر اور چار دیواری کی بے عزتی کی ہے۔ میونسپلٹی والوں نے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر بیس دن سے کچرہ نہیں اْٹھایا ہے، ایسی بدبو پھیلی ہوئی ہے کہ کھڑکی کھولنا ممکن ہی نہیں بجلی کے درہم برھم نظام کی وجہ سے تار گھروں میں گھسنے کی کوششیں کرتے ہوئے جیسے نظر آتی ہیں اور باقی کسر ننگی تاریں کھڑکیوں سے سرنکالنے والے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کے
انتظار میں ہیں،کیا لوگوں کو لاک ڈاون کے بعد اب بجلی سے مروانے کا ارادہ ہے۔یہ کوئی ڈرامہ نہیں حقیقت ہے۔ ہماری نوے فیصد آبادی اسی طرح کے ماحول میں رہ رہی ہے، اور یہ سب وینس کی گلیوں، ہالینڈ کی بارلے سٹریٹ یا نیو یارک کی سٹریٹ نمبر53، یا کارڈیف کی13 ایونیو میں تو ممکن ہے، پشتون آباد یا ٹین ٹاؤن کی آبادی میں نہیں۔ اورکیا آپ کو اپنے زیر سایہ محکمہ صحت کے انتظامی ڈھانچے کی ناکامیوں اور نالائقیوں کا علم نہیں جب محکمہ نے صرف چند ڈاکٹرز کو حکومت بلوچستان کے تفتان میں قائم کردہ قریظینہ سنٹر میں فوری حاضری کی رپورٹ کی ہدایت کی تو اکثر نے صرف اس لیے جانے سے صاف انکار کردیا اور عزت سادات بچانے کیلئے ڈاکٹروں کی جگہ پیرامیڈیکل اسٹاف کے نام تفتان دستوں کی لسٹ میں ڈال دیئے گئے تھے۔کیا آپ اپنے ماتحت محکمہ صحت کے اسٹاف کی چلاکیاں نہیں دیکھ چکے ہیں اس سلسلے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت سپاہیوں کو اگلے مورچوں میں لڑنے کے لیے خالی ہاتھ بغیر کسی گولہ بارود کے بھیج رہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں، چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔ اب حکم عدولی کرنے والوں کونوکری سے برخاست کرنے کے لیے غالبا ایک سمری بھی ارسال ہو چکی ہے۔محکمہ صحت جس کا قلمدان آپ کے پاس ہی ہے ابھی کچھ دن قبل شیخ زید ہسپتال کوئٹہ، جسے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کیلئے ہسپتال ڈیکلر کیا گیا ہے میں مرنے والے ایک شخص کے لواحقین کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے جس میں وہ طبی عملے کا اپنے مریض کے پاس نہ آنے اورپوری رات ہسپتال میں عملے کی عدم موجودگی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں اور ٹراما سنٹر سول ہسپتال کوئٹہ کی اسٹاف کی جانب سے کوئٹہ کے ایک تاجر جو ایک ہفتہ قبل ژوب کے قریب کار حادثہ کی وجہ سے کومہ میں چلے گئے تھے۔ جنہیں لواحقین کو کسی بڑے شہر میں علاج کی خاطر شفٹ کرنے کے لیے ملکی سطح پر ٹرانسپورٹ کی بندش کا سامنا تھا کہ بارے میں ٹراما سنٹرانتظامیہ کا یہ مشہور کردینا کہ انکو کورونا کا مرض لاحق ہوگیا ہے،جیسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملکی سطح پر جو طبی عملہ وسائل کی کمی کے باوجود دلیری اور جوان مردی کے ساتھ اس جان لیوا مرض کے ساتھ اپنی زندگیاں خطروں میں ڈال کر مصروف عمل ہے اسے پوری قوم سراہتی بھی ہے اور سلام بھی پیش کرتی ہے وہ طبی عملہ ملکی سطح پر جس جوان مردی کے ساتھ اس جان لیوا مرض کے ساتھ اپنی زندگیاں خطروں دن رات ڈال کر مصروف عمل ہیں جن کو پوری قوم سلام پیش کررہی ہے اور گلگت بلتستان کا ڈاکٹر اسامہ ان قومی ہیروز میں سے ایک ہیں ڈاکٹرز اس مصیبت کی
گھڑی میں سب سے آگے بڑھ کر ہمیں بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں،جس کے لیے ساری قوم انکی شکر گزار ہے۔ اور سلام پیش کرتی ہے۔ بلکہ اب تو حکمران بھی انکو بذریعہ سوشل میڈیا سلوٹ مار نے پر مجبورہیں۔ لیکن اگر واقعی یہ ٹویٹ آپکا ہے، (ویسے یقین نہیں آتا۔۔۔) معذرت خواہ ہوں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں