بلوچستان اسمبلی اورخواتین

تحریر:تانیہ بلوچ
امریکی نومنتخب صدرجوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب اپنے میں ایک پروقار تقریب تھی پنسلوانیا سے تعلق رکھنے والے 78سالہ نومنتخب جوبائیڈن 46ویں امریکی صدر کے طور پر باضابطہ فائز ہوگئے عام طور پر یہ خیال کیاجارہا ہے کہ اس تقریب کا مرکز امریکی نومنتخب پہلی خاتون نائب صدر رہیں۔
کملاہیرس امریکہ میں نئی تاریخ رقم کرنے والی پہلی خاتون اور غیر سفید فام نائب صدر ہیں۔55سالہ نائب صدر کی ترقیوں کی سیڑھی کی جانب نظردوڑائیں تو اس پورے سفر میں ان کی انتھک محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔
گوکہ امریکہ کی تاریخ میں اب تک دو خواتین نائب صدر کے امیدوار کے طور پر سامنے آئیں لیکن منتخب ہونے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ایک وکیل سے لے کر سابق اٹارنی جنرل اورپھر ڈیموکریٹ کی خاتون سینیٹر کے طور پر انہوں نے اپنی محنت سے اپنانام منوایا۔
اگرہم پاکستان کی بات کریں تو بعض خواتین کافی نمایاں رہیں لیکن ان میں سے اکثر کاسیاسی کردار محدود رہا۔سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہمیشہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر براجمان نظرآئیں اور ایک عام تاثر ہے کہ اشرافیہ اور امراء کے گھرانوں کی ان خواتین کو یہ منصب وراثت یاگفٹ کے طور پر عطا کیاجاتا ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو گوکہ دنیا بھر میں ایک طاقتور لیڈر کے طور پر ابھری وہ نہ صرف الیکشن جیتیں بلکہ اپنی جماعت کودوبارہ وفاق کی علامت بنانے کیلئے انتھک محنت اورقربانیاں دیں جس قدر مشکلات محترمہ نے اٹھائیں شاید وہ ایک مرد سیاستدان کیلئے بھی آسان نہ ہوتیں۔
اسی طرح آج کل اپوزیشن کابھرپور حصہ بننے والی مسلم لیگ نواز کی مریم نواز کے بارے میں ان کے مخالفین کی ایک عام رائے یہ ہے کہ سیاست کے اس منصب پرحق صرف اس بات پر انہیں دیا گیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے سربراہ کی بیٹی ہیں۔بہرحال وہ عوامی جلسوں میں اپنی موروثی سیاست کو قائم رکھتے ہوئے نہ صرف کامیاب ہوپائی ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قائدانہ صلاحیت مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
اب آتے ہیں ہم بلوچستان کی جانب جہاں اسمبلیوں میں اشرافیہ،امراء اورقبائلی نظام بہت عام ہے عمومی طور پر مخصوص نشستوں سے منتخب ہونیوالی خواتین کی اسمبلیوں میں آمد کے بعد بھی سیاست میں کوئی خاص کردار نہیں ہوتا گوکہ بی این پی (مینگل) اوربلوچستان نیشنل پارٹی کی حد تک خواتین کو اسمبلیوں میں بولنے کے موقع پر فراہم کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ان پارٹیوں کے منعقد کئے گئے جلسے اور پارٹی اجلاسوں میں بھی نظرآتی ہیں۔البتہ جمعیت علمائے اسلام پورے پاکستان باالخصوص بلوچستان میں اس سلسلے میں قدامت پسندی کا شکار ہے یہاں تک کے ان کی مجلس عاملہ اور شوریٰ کے اجلاس میں خواتین ایم پی ایز یا ایم این ایز کے بجائے ان کے گھر کے مرد حضرات حاضری دیتے ہیں اور عموماً ان مردحضرات کا تعلق پارٹی سے بالواسطہ یابلاواسطہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کا موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کی پارٹی ایک مذہبی پارٹی ہے لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ خواتین کومجمع سے دوررکھاجائے۔
وراثتی اوراسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل کی گئی کرسیوں کی فہرست تیار کی جائے تو یہ ایک طویل فہرست ہوگی جس کے نمبرز سینیٹ ایوانوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچستان کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کاہمیشہ حصہ رہا ہے اور یہ ایک عام خیال ہے کہ بلوچستان سے ”گڈفیس“ کی صورت میں کافی خواتین منظرعام پرلائی گئیں مگر ان کی کارکردگی پورے بلوچستان میں توکجا خود ان کے اپنے علاقوں میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں۔
زینت شاہوانی کا تعلق اپوزیشن جماعت بی این پی (مینگل) سے ہے صوبائی اسمبلی کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اور وکالت کے شعبے سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔زینت شاہوانی کا کہنا ہے کہ جب ایک گھر کا نظام خاتون کے بغیر نامکمل ہے تو اسمبلیاں کیسے چلیں گی۔مشرف سے ہزار مخالفت کے باوجود وہ اس اقدام کو سراہتی ہیں کہ انہوں نے اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ ہماری جماعت خواتین کواہمیت دیتی ہے مگر پھر بھی ہمیں اپنی جگہ بنانے کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مخصوص نشستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مخصوص طریقے سے ہی کام کرسکتی ہیں لیکن سیاسی جدوجہد کا حصہ بننے کے باوجود خواتین کو قانون سازی میں وہ حصہ نہیں ملتا جس کی وہ حقدار ہیں۔
سیاسی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین خصوصاً جن کا تعلق دیہاتوں،گاؤں،قصبوں سے اور بلوچستان میں بالخصوص شورش زدہ علاقوں سے پڑھی لکھی خواتین کی رسائی اسمبلیوں تک ممکن بنائیں تاکہ مستقبل قریب میں کملاہیرس جیسی خواتین سامنے آسکیں اور ملک کی ترقی میں اپنابھرپورکردارادا کرسکیں۔گوکہ2013ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی خواتین ووٹروں کی تعداد میں ایک خاص اضافہ بھی دیکھاگیا۔
راحیلہ درانی جیسی خاتون کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جنہوں نے ابتداہی سے بلوچستان میں سماجی مسائل کے حل میں دلچسپی لی اور اسپیکر منتخب ہوئیں۔
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ2018-19 کا بجٹ بھی ایک خاتون مشیر خزانہ ڈاکٹررقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا لیکن یہ چند مثالیں کافی نہیں کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں موجود خواتین کا یہ ماننا ہے کہ انہیں اسمبلیوں میں
عزت ضرور ملتی ہے مگر مکمل حقوق نہیں ……

اپنا تبصرہ بھیجیں