ہائی برڈ نظام کا تسلسل اور نیا ”برڈ“

تحریر: راحت ملک
جناب جہانگیر ترین مالی اور سیاسی طور پر موجودہ حکومت کے معماروں میں شمار ہوتے اور سیاسی سوچ و کردار کے حوالے سے مکمل طورپر جاری ہائی برڈ سیاسی ٹیکنالوجی کی پیداوار بھی ہیں حکومت کے اندر ان کے اثرورسوخ میں کمی اور بلآخر خاتمہ پچھلے برس کا واقعہ ہے حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ چند ماہ ملک میں موجود رہے اس اثناء میں وہ خاموشی سے مصالحت کی کوشش کرتے رہے جب حالات میں امید کی کرن بجھنے لگی تو بیٹے کو لے کر لندن چلے گئے قیام لندن کے عرصہ میں بھی وزیراعظم کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے مصروف عمل رہے کہا جاتا ہے کہ موبائل میسنجر پر دو طرفہ ہم آہنگی میں اضافہ ان کی ملک واپسی کا سبب بنا۔ جبکہ شد یگر ذرائع کے مطابق پیشتر ازیں انہوں نے جناب اسحاق ڈار کے ساتھ رابطے کیے پھر میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے میاں صاحب کو حکومت کے خاتمے کی مشترکہ کاوش کی پیشکش کی میاں صاحب تین سیاسی شرائط پر تعاون کے تیار تھے۔
جن کا مختصر احوال یہ ہے کہ تریں ن صاحب میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والی تمام پس پردہ سازشوں سے بطور مشاہد ذرائع پر تفصیل کے ساتھ تمام شرکاء کے حوالے سے انکشاف نما اقرار کریں لیکن ترین صاحب نے بقول شخصے اس پر معذرت کی اور دلیل دی کہ وہ ذاتی طور ایسے اعترافی بیان کا بوجھہ اٹھانے سے قاصر ہیں چنانچہ یہ معاملہ آگے نہ بڑھ پایا۔ جناب عمران خان سے روابط تعلقات میں تعطل کم کرتے دکھائی دیے تو وہ اپنے بیٹے سمیت ملک واپس آگیے سیاسی خاموشی برقرار رکھی سینیٹ انتخابات میں وہ حکومتی امیدواروں کیلئے زیادہ متحرک نہیں ہوئے تو ان کی مخالفت میں بھی اپنی توانائی شامل کرنے سے گریزاں رہے۔ عمران خان کے ساتھ اختلافات کا سبب چینی کی قیمتوں میں اضافہ بتایا جاتا ہے یہ تسلیم کرنا غلط نہ ہوگا کہ چینی کے نرخوں میں اچانک اور بے تحاشہ اضافہ سے انہیں اربوں روپے کا فائدہ ہوا تھا اس عمل میں انکی ٹجارتی خواہشات لازماً حصہ دار رہی ہونگی لیکن چینی کی قیمت بڑھنے کا سبب حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ تھا جس میں برآمد کنندگان (چینی ملز مالکان) کو سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی شامل تھا اس کا امکان ہے کہ دونوں میں جہانگیر ترین کا اثرورسوخ موثر طور پر موجود رہا ہو یا کم از کم وہ اس فیصلے سے قبل از وقت آگاہ ہوں مگر انہوں نے وزیراعظم کو اس فیصلے کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا اپنے تجارتی مفاد کے برعکس سمجھا ہو اور یوں چینی کی برآمد اور سبسڈی اور پھر مقامی مارکیٹ میں قلت سے نرخوں میں ہونے والے اضافے سے بھرپور طور پر مستفید ہویے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو فری مارکیٹ اکانومی کے معاشی فلسفے کا ناگزیر حصہ ہے جس سے پی ٹی آئی اور وزیراعظم مکمل طور پر متفق ہیں بلکہ اس پر پوری ریاستک مشنری عرصہ سے عمل پیرا ہے تو پھر چینی کی قیمتوں میں اضافہ تو مارکیٹ کے قوانین کا شاخسانہ ہے اس میں قانون شکنی کا تو کوئی پہلو موجود نہیں۔ بلکہ اس واردات میں حکومت اور فیصلہ ساز افراد کی دانشمندانہ حکمت و بصیرت مندی سے معذوری و محرومی کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ حکومت کے شعبہ احتساب کے انچارج نے جہانگیر ترین پر اب تک جو مقدمات قائم کئے ہیں ان میں چینی کی قیمت میں گزشتہ دو سال سے ہونے والے اضافہ کے حوالے سے کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔ تو یہ سابقہ مقدمات کو از سر فعال کرنے کا واضح مقصد چینی بحران کے اصل اسباب و ذمہ داران کی پردہ پوشی کرنا ہے جناب جہانگیر ترین کا دامن صاف ہے یا نہیں؟ یہ میں نہیں جانتا مگر ان کو قانون کے مطابق انصاف کے عمل سے گزرنے کا مکمل موقع ملنا چاہئے اس کی حمایت ضرور کروں گا۔
احتساب کو انتقام پسندی میں بدلنے کا سب سے بڑا نقصان خود بدعنوانی کی وارداتوں کو ملنے والا تحفظ ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنے تئیں جو کچھ کر چکی ہے عوامی اور قانونی حلقوں میں اسے ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے جناب جہانگیر ترین کا یہ کہنا کہ” وہ تحریک انصاف سے” انصاف” چاہتے ہیں پی ٹی آئی پر ایک لطیف طنز ہے جو عہد ٍ عمرانی کے احتسابی عمل کی اصلیت کھول کر بیان کرتی ہے۔ البتہ انہیں انصاف کے لیے ریاست کے کے نظام عدل کے اداروں سے سے انصاف کی امید کرنی چاھیے تھی؟ کیا وہ ان اداروں معیار ٍ عدل و کردار سے بھی مایوس ہیں؟ یہ سوال ج اب ترین کی انصاف کے لیے اپیل کے بعد سنجیدہ مطاحثے کانتقاضی ہو گیا ہے لیکن شاید ابھی اس بحث کا مناسب وقت نہیں آیا کیونکہ اب ملک میں عزت بذریعہ قانونی اتھارٹی کی رسم کہنہ کو قانون کے ذریعے طاقتور بنانے کا موسم طوالت پکڑ رہاہے صخن چمن میں آزادی فکروخیال کے پھول کھلے جب کھلیں گے مواقع روشن ہونگے تب ان موضوعات پر بھرپور موثر مباحثہ ہونگا۔ کسی رمزیہ بیان کناییاشارے کے بغیر کے بغیر۔ اور عوامی لب و لہجے میں تب مباحثہ بامعنی بھی ہوگا اور موثربھی۔
جناب جہانگیر ترین نے گزشتہ ہفتہ عشرہ میں بہت محتاط انداز میں سیاسی خاموشی توڑی ہلکے پھلکے سروں میں حکومتی دربار تک دیپک راگ کی تان پینچائی ہے کیا یہ سب کچھ ان کے شخصی ذہن کی اختراع ہے؟ بدگمانی اچھی چیز نہیں پر کیا کریں کہ بات بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔
حکومتی کارکردگی صفر جمع صفر ہے خارجہ و داخلی امور معیشت، معاشرت، پارلیمانی جمہوریت، روزگار،سیاسی استحکام ہر چیز زوال پذیر ہے عوامی سیاسی اشتعال کی بڑھتی حدت میں موجودہ حکومت کے بانیان و کہانی کار بھی شدید اور براہ راست تنقید کی زد میں ہیں اب تک اگر ایک صفحے کی کہانی دھرائی جا رہی تھی تو شاید ہائی برڈ سسٹم کے منتظمیں کی مجبوری ہوگی وہ کسی اچھی توقع پر اسے رواں دواں رکھنے پر آمادہ رہے ہونگے یا پھر خلاء نظم حکمرانی کے بندوبست کی ناکامی کے الزام سے بچنے کیلئے تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کی مشق سخن میں مگن رہے ہوں گے لیکن جب پی ڈی ایم کی تحریک منطقی نتائج کی جانب بڑھتی اور اپنے مقاصد حاصل کرتی صاف دکھائی دینے لگی تو پھر ہائی برڈ انجینئرنگ کے سرکل میں اپ بنایے ہویے ماڈل میں جدت کاری کا سوال نمایاں ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے پی ڈی ایم کے اجلاس و دیگر اجتماعات میں جناب نواز شریف کے بیانیہ پر تحفظات کا اظہار کرایا گیا اور حتمی طور پر میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط عائد کراکے تحریک کی توانائی اور سمت کا رخ بدلوایا گیا۔
سینیٹ میں جناب حفیظ شیخ کی شکست اس کا ثبوت ہے کہ جناب سنجرانی سینیٹ چئیرمین قابل ٍ قبول اور جاری نظم و بست کے تسلسل کا اشارہ ہیں علاوہ ازیں جناب گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کا سارا عمل ہی اس سیاسی ماڈل کی جدت کاری کا عکاس ہے۔ چنانچہ یہی وہ وقت تھا جس میں ہائی برڈ نطام کے اندر سے آزمودہ تجربہ کار قابل بھروسہ ایک ”برڈ“ کی سیاسی فعالیت کا آغاز ہوا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جناب ترین اور ان کے ہم خیال اراکین پارلیمان کی تعداد۔ انداز ٍتنقید، جارحانہ کیوں نہیں؟ اس کی وجہ سطور بالا میں درج ہے کہ وہ تحریک انصاف سے انصاف کے طلب گار بھی ہیں اور اس کے اندر رہتے ہویے ممکنہ تبدیلیوں کے متمنی ہیں نیز قابل قبول فرد بھی۔ سادھ الفاظ میں وہ تحریک انصاف کو انصاف پسندی سے عاری جماعت قرار دے گہری اندرونی ضرب لگا چکے ہیں اب ہر روز وہ ظہرانے اورعشائیے دے رہے ہیں تاکہ اپنے اثر و رسوخ کا بتدریج اظہار کریں۔ مطلوب نیے اتحادیوں میں اپنی مرکزی حیثیت منوائیں پی پی اس گیم کی اہم فریق ہوگی جو پی ڈی ایم کی وساطت سے اپنے جماعتی و شخصی مفادات سمیٹ چکی ہے اب اسے پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں لیکن وہ شاطرانہ انداز میں علیحدگی چاھتی ہے جس کا الزام نون لیگ اور جے یو آئی پر عائد کرنا سہل ہو۔
حکومت نے بھی جہانگیر ترین کی نیم دلانہ جارحیت کی اصلی قوت و ہدف کا ادراک کرلیا ہے اور برطانیہ سے باضابطہ تحریری درخواست کے ذریعے انگلستان میں موجود جہانگیر ترین کے اثاثوں کی تعمیر و خریداری کے ذرائع معلوم کرنے کیلئے تحقیقات کرانے کی گزارش کی ہے المختصر فریقین بتدریج سیاسی مقابلے کیلئے صف بندی کر رہے ہیں پی پی نے تکنیکی انداز سے پی ڈی ایم سے ناطہ توڑ لیا ہے تحریک لبیک نے 12۔ اپریل کی شام سے اپنے سربراہ کی اچانک گرفتاری کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں دھرنے شروع کئے ہیں اس بات کا وسیع امکان ہے کہ مذکورہ دھرنے تحریک لبیک کو ری لانچ کرنے کی خلائی کوشش ہو جس سے حکومت کو دباؤ میں رکھنے اور پی ڈی ایم کے بالمقابل ایک مذہبی کارڈ کو متحرک کر کے اسکے احتجاجی رسوخ و ساکھ کو دھندلانا مقصود ہو جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں موجود رہتے ہوئے بتدریج اپنی پارلیمانی عددی قوت میں اضافے کرتے رہے تو پیپلز پارٹی، اے این پی، جی ڈی اے، قاف لیگ، باپ اور جماعت اسلامی پر مشتمل نئی مرکزی حکومت قائم ہو سکتی ہے جس کی قیادت بہر طور ہائی برڈ نظام کے خالق ایسے برڈ کے سپرد کریں گے جو قابل بھروسہ ہو۔ عمران خان سے زیادہ سیاسی تجربہ و لچکدار رویہ رکھتا ہو اور پہلے سے ہائی برڈ سیاسی بندوبست کا حصہ رہا ہو نئی صف بندی ہائی برڈ نظام کے تجربے کا دوسرا وڑن ہوگا جو 2023ء تک برقرار رہ سکتا ہے شاید پارٹ ٹوپارٹ ون کے مقابلے میں کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اس کے خالقین کی ندامت سے بچا سکے البتہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا نیا مجوزہ برڈ پارلیمان میں بہتر تعلقات کار قائم کرنے میں آزاد ہوگا؟ اور کیا وہ آنے والے انتخابات ایسی انتخابی اصلاحات کے ذریعے منعقد کرانے کیلئے اپوزیشن کا اعتماد حاصل کر پائے گا یا اس کا مجاز ہوگا کہ انتخابات میں غیر سیاسی مداخلت کا مکمل سدباب کر پائے؟ ایسا نہ ہوا تو پی ڈی ایم کی تحریک پیلے سے زیادہ شدت پسند رجحانات کا مظاہرہ کرنے پر مائل ہوگی علاوہ ازیں نئے برڈ کے ذریعے نئی حکومت کو مخدوش تر معاشی صورتحال میں اگلے مالی سال کیلئے متزلزل معیشت اور منفی جی ڈی پی کے ساتھ مالی میزانیہ مرتب کرنے اسے منظور کرانے کا ناقابل عبور چیلنج بھی درپیش ہوگا مگر میری قیاس آرائی. میں لٹمس ٹیسٹ اسٹیٹ بینک کی داخلی خودمختاری کے نام پر اسے پاکستان کے دائرہ اختیارات سے نکال کر آئی ایم ایف کے سپرد کرنے کا رواں عمل ہے جو حالات و ہائی برڈ سیاسی بندوبست کی قسمت کا فیصلہ کرے گادیکھنا ہوگا کہ حکومت صدارتی آرڈیننس یا قانونی ترمیم کا عمل آگے بڑھا پاتی ہے یا یہ قانون ناکامیسے دوچار ہوکے تاریخ کے اوراق میں گم ہوتا ہے؟ اس صورتحال میں بلاشبہ ملک کیلئے نئے معاشی مسائل ابھریں گے کیونکہ پھر آئی ایم ایف سے قرضے ملنے کا امکان باقی نہیں رہے گا تو نو من تیل کے بغیر رادھا کیسے ناچے گی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں