بلوچوں کا کینسر زدہ مکہ

تحریر – جاوید سلام بلوچ
کوہ سلیمان جسے بلوچوں کا مکہ کا کہا جاتا ہے یہاں کےبلوچ بھی ہمیشہ بیت المقدس کے مسلمانوں کی طرح اپنی بقا کی جنگ لڑ رہےہیں کوہ سلیمان کی اہمیت کی وجہ اس کے معدنیات ہیں جس میں سرفہرست یورنیم ہے۔دیگر مختلف قسم کے وساٸل میں جپسم،گیس،تیل،کوٸلہ اور کئی دوسرے وسائل شامل ہیں۔ معدنیات سے مالا مال اور بلوچستان میں داخلے کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے یہ خطہ انتہائئ اہمیت کا حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے جہاں پہ باہر کے کسی بھی ملک کا باشندہ داخل نہیں ہوسکتا۔۔قسمت کی دیوی سامراجی دیو ہیکلوں کی شکل میں ان لوگوں پر کبھی مہربان نہ ہوسکی۔بیرونی حملہ آوروں اور قباٸلی جنگوں کے حالات جیسے ہی بدلے اس کے ساتھ ہی یہاں پر کینسر کی صورت میں ایک اور عذاب نازل ہوا۔جس نے دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پورے کوہ سلیمان کو اجاڑنا شروع کیا بلکہ اس کے اثرات پورےضلع ڈیرہ غازیخان،تونسہ شریف تک پھیل گئے ہیں۔وقت کے ساتھ اس کی دہشت میں اتنا اضافہ ہوا کہ اس کی نام لینے سے لوگ ڈرتے ہیں جب بھی کسی کو کینسر ہوتا تو کہتے اس سے (گندغے مرض) یعنی بہت بری بیماری ہوئی ہے۔
وہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہے کہ کینسر کی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے کی وجہ وہاں پر موجود جوہری پراجیکٹ اور ان کے تابکاری اثرات ہیں۔یورینیم کو عمومی طور دنیا بھر میں خوف کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔اس کی وجہ اس کا جوہری ہتھیاروں میں اسکا استعمال اور اس کی شعاعیں ہیں جو کٸ سالوں تک کسی بھی جگہ کے انسانوں سے لے کر چرند پرند تک سب کی زندگیوں کو تباہ و برباد کر کے بربادی کی داستانیں مرتب کرتی رہی ہیں.یہ انسانوں کےلیے اس وقت خطرناک بن جاتا ہے جب اسکے الفا پارٹیکلز کو سانس کے زریعے یا پھر پینےوالے پانی کے ساتھ پیاجاۓ یا جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے فشن ری۔ایکشن کاوجود میں آنا ہے۔۔عمومی طور پر یورینم کی شعاعوں سے مختلف قسم کے مرض جن میں بون میرو کینسر،جگر کا کینسر،پھیپھڑوں کے کینسر کے علاوہ گردوں کا فارغ ہونا شامل ہے۔
جب 1945 میں امریکہ نے جاپان کے دو بڑے شہروں پہ ایٹمی دھماکے کیے تو وہاں پر سب کچھ جل کر خاکستر ہونے کے ساتھ ساتھ 1945 کی آخر تک کینسر کی شرح میں ریڈی ایشن کی وجہ سے انتہا درجے تک اضافہ دیکھنے کو ملا۔دنیا بھر میں یورینیم اور اس کی ویسٹ میٹریل کو کینسر کا ایک اہم سبب جانا جاتا ہے.
۔دو ساٸنسدان پیٹر ٹوڈورو اور ایلیکا نکولوا ایلویا نے اپنی ایک ریسرچ جو انہوں نے رومانیا جرنل آف فزکس میں 2006 میں شاٸع کی؛میں لکھا ہے کہ یورینیم ایک خطرناک ریڈیوایکٹو ہے یہ کینسر کی سبب بننے کے علاوہ ریپروڈکٹو آرگن پر بھی اثر کرتا ہے.اس کے علاوہ 2011 میں صحت پر یورینیم کے اثرات اور نٸ ریسرچ کے تلاش کے نام پر ڈوگ برگی،ویرجینا بچر نے اپنی ریسرچ شروع کی جس میں انہوں نے 2011_2005 یورینم کی کان کنی اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات پر لکھا ہے کہ یہ ہوا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی پانی اور زمین پر بھی اپنے اثرات کے ساتھ انسانوں میں نیفروٹاکسٹی،جینو ٹاکسٹی کے علاوہ انسانی نشونما میں تبدیلیوں پر بھی بہت نقصان دہ اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتا ہے۔
کوہ سلیمان میں اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کے مختلف پراجیکٹ پر کام جاری ہےجن میں بغلچر،کورو ،راکھی گاج ,زین ,دالان شامل ہیں۔کوہ سلیمان کے مقامی باشندوں کے بقول وہاں پر کینسر کے بڑھتے کیسز کی وجہ یہاں پر موجود پاکستان اٹامک انرجی کے پراجیکٹس اور ان سے نکلنے والے تابکاریاں ہے جن سے ہر سال کئی لوگ اس مرض سے انتقال ہو رہے ہیں۔
کوہ سلیمان سے نکلنے والےیورنیم نے پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے بدلے میں ان کوغربت،پسماندگی اور یورنیم سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور اپنے خاندان کے جنازہ اٹھانے کے سوا اور کچھ بھی نہ مل سکا.
وہاں کے لوگ بغلچر میں ملک کے مختلف حصوں سے لایا جانے والے ایٹمی فضلہ جات کی ڈمپنگ کرنے پر کئی بار تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ان کی باتوں کی نہ تو شنوائی ہوئی اور نہ ہی اس مسئلہ کو سنجیدہ لیا گیا۔
۔اس پر بی بی سی کے نامہ نگار ندیم سعید لکھتے ہیں کہ (بغلچر)کوہ سلیمان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں پر ایٹم بمب گرا کر ایک ہی دفعہ مار دیا گیا تھا لیکن ہمارے لیے نسل در نسل مرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔مقامی عدالت میں پی اے ای سی(پاکستان اٹامک انرجی کمیشن) کے نماٸندوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہاں پر مختلف علاقوں سے مواد لا کر رکھا جا رہا ہے لیکن انہیں زیرزمین گہرے خندقوں میں رکھا جا رہا ہے جس کے علاقے پر کوئی تابکاری اثرات نہیں ہونگے۔مگر مقامی لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جبکہ وہ پی اےای سی کے ایک اور رپورٹ کو دکھاتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ یہاں پر رکھا جانے والا فضلہ ایکٹو سٹیٹ میں ہے اور اس کے علاوہ وہاں کے لوگ یہ سوال کر رہےہیں کہ اگر واقعی یہ فضلہ ایکٹو سٹیٹ میں نہیں تو اس کو ملک کے مختلف علاقوں سے اٹھا کر یہاں کیوں لایا جارہا ہے۔
10 مارچ 2014 کو موسیَ کلیم نے ڈان نیوز میں کوہ سلیمان کے علاقے بغلچر کے بارے میں ایک آرٹیکل نیوکلٸیر فضلہ جات کے نام سے لکھا جس کے مطابق پی اے ای سی کے بغلچر میں 1200 کنال پر تین مقام پر پراجکٹس ہیں جن پر1977 سے ماٸنگ شروع کیا گیا اورپاکستان اٹامک انرجی کے میڈیا رپورٹس کے مطابق یہاں پر ہر سال 25000kg یورینیم اور جس کو نیوکلٸیر زبان میں پیلا کیک (yellowcake) کہا جاتا ہے وہاں سے نکال رہی ہے ان کے مطابق بغلچر پاکستان کی سیفٹی کےلیے بہت بڑا یورینیم دیتا ہے مگر بدلے میں اس کو صرف یورینیم کا ویسٹ ملتا ہے۔2005 میں بغلچر کے مقامی لوگ ویسٹ میٹریل کی ڈمپنگ کے خلاف عدالت میں گئے جس پر عدالت میں پی اے ای سی کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کیا گیا مگر اس رپورٹ کے بعد کیا ہوا انہیں ابھی تک معلوم نہیں۔اس کے بعد کسی حد تک ویسٹ میٹریل کو انڈرگراٶنڈ کیا گیا مگر اس سے ریڈی ایشن میں خاطرخواہ کمی نہ ہوسکا۔وہاں پر مختلف قسم کی بیماریوں کے ساتھ کینسر کی مرض عام ہے۔ان تابکاریوں کے اثرات نہ صرف انسانوں پر ہیں بلکہ وہاں پر موجود جانوروں پر بھی ان تابکاریوں کے خاصے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ڈیرہ غازیخان کے ایک پراٸیوٹ کلینک کے ڈاکٹر اور ڈاکٹر محمد ارشد جو کہ لاہور میں آنکولوجسٹ ہیں اور سرجیکل آنکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں ان کے مطابق کینسر کی شرح اس طرح کے علاقوں میں دوسرے علاقوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی ان علاقوں اور ان کی صحت کیطرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ دوسرے جانب پاکستان آرمی کے ایک سٸنیر افیسر کے مطابق جو کہ پاکستان کے نیوکلٸیر ویپن کو کنٹرول کر رہےہے یہ سب لوگوں کی ”وہم“ ہے جبکہ پاکستان نیوکلٸیر ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق وہاں پر ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہےاور انہوں نے اس کا الزام ان قبائلی لوگوں پر لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس شورشرابہ کی وجہ وہاں پہ قباٸلیوں کی آپس میں دشمنی ہے نہ کہ کوئی تابکاری شعاعیں ہے یہ لوگ کچھ مفاد لینے کے لئے ادارے پر الزام لگا رہیں ہیں۔
درجہ چہارم کی اسامیوں کے علاوہ بڑے پوسٹوں کی اسامیوں پر وہاں کے ڈگری ہولڈر لوگوں کو لوکل ہونے کی بنا پر ٹیسٹ اور انٹرویوز سے پہلے ہی ریجکٹ کردیا جاتا ہے جو احساس محرومیت کو جنم دے رہی ہے گورنمنٹ کی طرف سے بھی اس علاقے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے اور آئے روز یہاں پر ایٹمی تجربات کیا جارہے جس سے یہاں کے مقامی باشندے ہر آئے روز نت نئی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جو سراسر یہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔
یہاں کے لوگ یورینیم کو کینسر کا سبب سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ مقامی آبادی گورنمنٹ کے رویے سے نالاں ہے۔پورے علاقے میں چند بی ایچ یو موجود ہیں جہاں پر ڈاکٹر نہیں ہیں جبکہ چند ڈسپنسر موجود ہیں جو خود نہیں جانتے کے ہم نے کیا کرنا ہے جبکہ پی اےای سی کے بڑے ہاسپیٹل لاہور،اسلامآباد، ملتان اور میانوالی میں موجود ہیں جہاں پر اس علاقے کے لوگ غربت کے باعث نہیں پہنچ پاتے ہیں. یہ سب دیکھنے کے بعد یہ کہنا بجا ہو گا کہ کوہ سلیمان کے بلوچوں کا پاکستان کے لئے اتنی بڑی قربانی جیسے ان کا تمسخر اڑا رہا ہو۔