صحافی کے قتل کے محرکات کا سامنے لانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کو یقینی بنایا جائے،ارکا ن اسمبلی

کوئٹہ:بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے کہا ہے کہ صحافی عبدالواحد رئیسانی کے قتل کے محرکات کا سامنے لانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کو یقینی بنایا جائے جبکہ صوبائی اسمبلی میں بلا پیمودہ زمینوں کے معاملے کو قائمہ کمیٹی برائے محکمہ مال کے سپرد کردیا گیا، پشین سول ہسپتال میں ڈاکٹروں اور سہولیات کی عدم موجودگی کی معاملے پر محکمہ صحت سے رپورٹ طلب،پیر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں نے آج صحافی عبدالواحد رئیسانی کے قتل کے خلاف اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ہے ان کا مطالبہ ہے کہ اب تک جتنے صحافی شہید ہوئے ان میں سے کسی کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے صحافی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر انصاف مانگ رہے ہیں اور وہ احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں انہوں نے کہا کہ شہید صحافیوں کو اب تک معاوضہ ادا نہیں کیا گیا صحافی بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ میڈیا اسمبلی کی آواز ہے ان کے بغیر ہم کچھ نہیں صحافی عبدالواحد رئیسانی کے قتل کی مذمت کرتا ہوں اور صحافیوں کے احتجاج کی بھرپور حمایت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ صحافیوں کے مسائل حل کئے جائیں اور شہید ہونے والے عبدالواحد رئیسانی کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی جائے۔ اس موقع پر ثناء بلوچ نے کہا کہ بی ایس او کے سابق سیکرٹری اطلاعات ناصر بلوچ، پروفیسر غلام نبی، پروفیسر نگہت سلطانہ، صحافی عبدالواحد رئیسانی کے لئے فاتحہ خوانی کی جائے انہوں نے کہا کہ عبدالواحد رئیسانی کے والد کو ہم کس منہ سے دلاسہ دیتے کہ ان کے گھر کا چراغ جو اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے نکلا اسے قتل کردیاگیا اور کہا گیا کہ یہ رہزنی کی واردات ہے اب تک 45صحافی شہید ہوچکے ہیں سیف سٹی منصوبے پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہورہے ہیں مگر عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں آج تک کسی صحافی کا کوئی قاتل، ملزم یا مجرم نہیں پکڑا گیا ڈپٹی سپیکر رولنگ دیں کہ واحد رئیسانی سمیت تمام شہید صحافیوں کا معاوضہ فی الفور ادا کیاجائے آج معاشرہ سنجیدہ مسائل ٹوٹ پھوٹ شکار ہے صوبے میں چورڈاکوؤں کی حکومت ہے ادارے تباہ ہوچکے ہیں پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ دے اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قرار داد منظور کی جائے اس موقع پر رکن اسمبلی نصراللہ زیرئے نے بھی عبدالواحد رئیسانی کے قتل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ صحافیوں کے قتل کے واقعات کے حقائق جاننے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے انہوں نے کہا کہ پشین گنج منڈی میں لگنے والی آگ کے متاثرین کا اب تک ازالہ نہیں کیا جاسکا حکومت ان کا ازالہ کرے۔اس موقع پر عبدالواحد رئیسانی سمیت دیگر افراد کے درجات کی بلندی کے لئے ایوان میں فاتحہ خوانی کی گئی اور ڈپٹی سپیکر نے کمیٹی تشکیل دی جس نے احتجاج کرنے والے صحافیوں سے جا کر مذاکرات کئے۔جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغر ترین نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ گزشتہ روز پشین گنج منڈی متاثرین سے اظہاریکجہتی کریں گے تاہم ان کی طبعیت خراب ہونے پر وہ نہیں جاسکے جس کے بعد وہ کل دھرنے کے شرکاء سے ملاقات کرکے متاثرین کے مسائل حل کروائیں گے ساتھ ہی وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ نقصانات کا ازالہ کریں گے۔ وقفہ سوالات شروع ہوا تو جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی غیر حاضر تھے جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ زابد ریکی قرار دادیں اور سوالات بھیجتے ہیں لیکن اجلاس میں نہیں آتے لہٰذا ان کے سوالات جوابات موصول ہونے پر نمٹا دیئے جاتے ہیں۔ ملک نصیر شاہوانی نے محکمہ کھیل سے متعلق ضمنی سوال دریافت کرتے ہوئے کہا کہ شاہوانی سٹیڈیم جو کہ سریاب میں واقع ہے کی مرمت اور بہتری کے لئے حکومت اقدامات نہیں اٹھارہی صوبے میں بارہ تیرہ مقامات ایسے ہیں جہاں لوگ نہیں مگر سٹیڈیم بنائے جارہے ہیں اور کوئٹہ شہر میں موجودہ سٹیڈیم کو بہتر نہیں کیا جاتا عوامی فنڈز کا ضیاع ہورہا ہے جس پر مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ نے جواب دیا کہ شاہوانی سٹیڈیم کے لئے دو کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اگر کسی رکن کو شکایت ہے تووہ محکمے کو آگاہ کرے صوبے کے چودہ اضلاع میں سپورٹس سٹیڈیمز کی تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے اگر محرک تفصیلات چاہتے ہیں تو نیا سوال لے آئیں۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے کہا کہ صحافیوں کے مسائل سنے ہیں جلد وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نصراللہ زیرئے نے بھی احتجاج ختم کرنے پر صحافیوں کا شکریہ ادا کیا۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر صحت کی توجہ مبذول کرائی کہ گزشتہ دنوں پشین میں ممتاز سماجی ورکر نعمت اللہ ظہیر کے چھوٹے بھائی سید نصراللہ آغا کو دل کا دورہ پڑا جس کو علاج کی غرص سے فوری طور پر سول ہسپتال پشین لایا گیا لیکن مذکورہ ہسپتال میں کوئی بھی ڈاکٹر یا طبی عملہ موجود نہیں تھا۔ مذکورہ مریض کو کوئٹہ شفٹ کیا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا سول ہسپتال پشین کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی غفلت کی بناء پر اکثر مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کرچکے ہیں محکمہ صحت نے سول ہسپتال پشین میں طبی عملے کی عدم موجودگی اور دیگر طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں اس کی تفصیل فراہم کی جائے۔اس موقع پر پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے کہا کہ چونکہ وزیراعلیٰ ایوان میں موجود نہیں ہیں لہٰذا توجہ دلاؤ نوٹس کو موخر کیا جائے رکن اسمبلی اصغر ترین نے کہا کہ جب بھی محکمہ صحت سے متعلق سوالات کرتے ہیں ان کے جواب نہیں ملتے محرک نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اگر 29تاریخ تک جواب ملنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو توجہ دلاؤ نوٹس موخر کرنے پر اعتراض نہیں بعدازاں بابرموسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ محکمہ صحت اس معاملے پر 29اپریل کے اجلاس میں رپورٹ پیش کرے اگر محکمے کی جانب سے کوتاہی ہوئی ہے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔بی این پی کے پارلیمانی سیکرٹری ملک نصیر شاہوانی نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر مال کی توجہ مبذول کرائی کہ حالیہ دنوں عدالت عالیہ بلوچستان نے صوبہ کے بلا پیمودہ اراضیات کی بابت فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسی بھی مرتب کرے تاکہ اگر سرکار کو کہیں بھی بلا پیمودہ اراضیات کی ضرورت ہو تو قانون کے تحت فراہم کی جاسکے اس بابت حکومت کب تک قانون سازی اور پالیسی مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے انہوں نے کہا کہ زمینوں کی سیٹلمنٹ کا مسئلہ سنگین ہے حکومت کے سپریم کورٹ میں جانے سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا ہائیکورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کمیٹی تشکیل دی جائے جو معاملہ طے کرے صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی بنائی جائے جو قانون سازی کے حوالے سے مشاورت کرے صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو فیصلہ آیا ہے حکومت محکمہ قانون کے ساتھ مل کر اس پر غور کررہی ہے اور اگر ایکٹ بنانے کی ضرورت پڑی تو وہ بھی بنائیں گے ہم لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرنا چاہتے بعدازاں اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئر مین نصراللہ زیرئے نے ایوان کی متعلقہ قائمہ کمیٹی میں محمدخان لہڑی، انجینئر زمرک خان اچکزئی، مبین خلجی، اصغر خلجی، نصراللہ زیرئے اور ملک نصیر شاہوانی کو شامل کرنے اور اس معاملے کو دیکھنے کی رولنگ دی۔اجلاس میں بلوچستان موٹروہیکلزکا(ترمیمی) مسودہ قانون مصدرہ2021ء (مسودہ قانون نمبر06مصدرہ 2021ء)،کم سے کم اجرت کا مسودہ قانون مصدررہ2021(مسودہ قانون نمبر09)، جبری و گروی مشقت کے نظام کے خاتمے کا مسودہ قانون مصدرہ 2021(مسودہ قانون نمبر10مصدرہ 2021ء)، بچوں کی ملازمت (ممانعت و ضابطہ کاری) کا مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر11مصدرہ2021)،ادائیگی اجرت کا مسودہ قانون مصدرہ2021ء (مسودہ قانون نمبر12مصدرہ2021)کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کے منعقدہ اجلاس میں وزیر محنت و افرادی قوت کی جانب سے دکانوں و اسٹیبلشمنٹ کا مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر13مصدرہ 2021ء)،بلوچستان انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائٹڈ (اسٹینڈنگ آرڈرز)کا مسودہ قانون مصدرہ2021ء(مسودہ قانون نمبر14مصدرہ2021ء)اور فیکٹریوں سے متعلق مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر15مصدرہ2021ء)فرداً فرداً ایوان میں پیش کیا اور ایوان نے انہیں ایوان کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔دریں اثناء وزیر صحت بلوچستان کی جانب سے پارلیمانی سیکرٹری ماہ جبین شیران نے بلوچستان مغربی پاکستان ویکسی نیشن آرڈیننس1958ء میں مزید ترمیم کامسودہ قانون مصدرہ2021ء (مسودہ قانون نمبر16 مصدرہ 2021ء) بھی ایوان میں پیش کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں