سردار صاحب کی تیسری برسی،کچھ یادیں کچھ باتیں

تحریر: انور ساجدی
برادرم ساجد ترین نے31اگست کی شام کو فون کر کے حکم دیا کہ میں سردار صاحب کی برسی میں شرکت کروں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کروں۔ویسے یہ کام میں ان کی پہلی برسی کے موقع پر کرچکا ہوں اگر وہ اظہار خیال کی دعوت حامد میر صاحب کو دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا کیونکہ وہ پایہ تخت میں بیٹھ کر تن تنہا بلوچوں کی حمایت پر پتھر کھا رہے ہیں یا ایمان مزاری اور اسد علی طور کو بلاتے جو کافی عرصہ سے اپنے دامان تار تار کروا بیٹھے ہیں۔ہم تو گھر کے لوگ ہیں ہماری خیر ہے جو لوگ اس ریاست میں صائب رائے رکھتے ہیں ان کو بلانا چاہیے۔سردار صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ جب وہ اور نواب خیر بخش پاکستان کی اسمبلیوں میں گئے تھے تو راولپنڈی اور لاہور کے اخبارات ان کے نام کے ساتھ مانگل،منگل اور ماری لکھتے تھے نہ وہ بلوچستان سے واقف تھے نہ اس کا جغرافیہ جانتے تھے اور نہ ہی اس کی تاریخ سے واقفیت رکھتے تھے۔اسے کیا کہیے المیہ غیر سنجیدگی بیگانگی غرور یا تکبر کہ سابق وزیر داخلہ ن لیگ پنجاب کے موجودہ صدر رانا ثناءاللہ کو آج بھی پتہ نہیں کہ عطاءاللہ مینگل کون ہے؟وہ حیات ہیں کہ یہ دنیا چھوڑ چکے ہیں؟مطلب یہ ہے کہ 1956ءسے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔جب سردار صاحب پہلی مرتبہ پاکستان کی اسمبلی میں گئے تھے نہ بلوچستان کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے اور نہ ہی یہاں رہنے والے لوگ کسی آسودہ حال زندگی میں پہنچ پائے ہیں۔1956میں بھی سوئی سے نکلنے والی گیس کراچی اور لاہور تک پہنچ گئی تھی لیکن وہاں کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ اتنی بڑی سوغات کہاں سے آ رہی ہے۔وہاں کی اشرافیہ اس وقت بھی اسے مال غنیمت سمجھتی تھی اور آج بھی سمجھ رہی ہے۔چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر آئی تھی کہ سوئی کی خواتین گیس پائپ لائن کے نیچے سروں پرلکڑیاں چن کر جا رہی ہیں تاکہ اپنے چولہے جلائیں۔بدقسمتی سے اس حقیقت کو بھی لوگ تعصب سے تعبیر کرتے ہیں کوئی دو سال پہلے بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی تب سینیٹر تھے سینیٹ سے استعفیٰ کی دھمکی دے رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سوئی کے لوگوں کو گیس فراہم نہیں کی گئی تو وہ احتجاجاً سینیٹ کی نشست چھوڑ دیں گے۔شکر ہے کہ اس باغیانہ بیان کے بعد ان پر غداری کا لیبل نہیں لگا اور انہیں الٹرا پاکستانی نیشنلسٹ تسلیم کر کے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا گیا جبکہ نواب بگٹی کو ساحل ووسائل کے معاملہ پر باغی اور غدار قرار دے کر موت کی سزا مقرر کی گئی۔سردار عطاءاللہ مینگل بہت ہی مختلف منفرد اور یکتا شخصیت تھے۔ان کی طبیعت میں ہر وقت ایک اضطراب رہتا تھا ان کے پاس تعلیم کم اور علم بہت زیادہ تھا غالباً یہ خاصیت بیلہ ہائی اسکول سے ودیعت ہوئی تھی۔جہاں سے سردار صاحب نے بنیادی تعلیم حاصل کی تھی۔اس اسکول کے فارغ التحصیل جام میر غلام قادر بھی کافی ذہین اور زیرک مانے جاتے تھے نہ جانے اس اسکول کے کتنے اور ایسے فارغ التحصیل لوگ تھے جو باکمال تھے۔خان صاحب کرم خان کے چھوٹے بھائی بھی اچھے خاصے عالم تھے لیکن سیاست میں حکمت میں جہاں بانی اور جہاں بینی میں جو مقام سردار عطاءاللہ کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ان جیسا خطیب تو پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔گجر ہائی اسکول مشکے میں ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے خواجہ نصیر ان کا تعلق سرگودھا کے شہر بھیرہ سے تھا۔بہت بڑے عالم اور زبردست استاد تھے۔وہ سردار صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔جب سردار صاحب وزیراعلیٰ تھے تو موصوف ایجوکیشن آفیسر بن گئے تھے اور قلات میں ان کی پوسٹنگ تھی۔اس دور میں سینکڑوں پنجابی اساتذہ بلوچستان چھوڑ کر چلے گئے تھے مگر خواجہ صاحب نہیں گئے اور بلوچستان کو ہمیشہ کےلئے اپنا وطن بنا لیا۔میں نے ایک دن اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے یار سردار صاحب نے مجھے اپنا مرید اور گرویدہ بنا لیا۔اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بلوچستان کو ہی تدفین کا اعزاز بخشوں میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ سردار صاحب قلات میں آئے ان کی ملازمت بھی یہیں پر تھی ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
”ایک نیم پاگل جوڑے کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ۔ماں باپ نے چوم چوم کر اسے مار دیا یہ جو پنجابیوں کی پاکستان سے محبت ہے یہ بھی اسی طرح ہے یہ لوگ اپنی معصومیت میں اس ریاست کو چوم چوم کر مار دیں گے۔“
خواجہ صاحب کے بقول وہ اس بات سے اتنا متاثر ہوئے کہ سردار صاحب کو اپنا مرشد مان لیا کیونکہ ایک پنجابی کی حیثیت سے وہ جانتے ہیں کہ ان کی بات حقیقت پر مبنی ہے۔سن2000 میں لندن کے ہاؤس آف کامنز کے ایک ہال میں سیمینار تھا سندھ کے جلاوطن وزیر پیرمظہرالحق بھی موجود تھے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آج میں بتاؤں گا کہ جب تک پنجاب اپنا رویہ تبدیل نہیں کرے گا اور چھوٹے صوبوں کے حقوق نہیں دے گا تو یہ ملک نہیں چل سکتا۔میں نے کہا کہ پیر صاحب لندن میں رہنے والے پنجابی زیادہ شدید پاکستانی ہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی درگت بنا لیں لیکن وہ باز نہ آئے آتے ہی کہا کہ میں چار مرتبہ وزیر رہ چکا ہوں آباؤ اجداد نے قیام پاکستان کے وقت بڑی قربانیاں دی تھیں یہ جو پیر الٰہی بخش کا علاقہ ہے میرے دادا نے مہاجروں کی رہائش کےلئے وقف کیا تھا یہ بات کہنے کے بعد نہ جانے کہاں سے انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش شروع ہوئی لوگ کہہ رہے تھے کہ جب پاکستان بن چکا ہے تو صوبوں کی کیا ضرورت ہے۔ہمیں صوبوں کی نہیں محفوظ مرکز کی ضرورت ہے۔یہ منظر دیکھ کر مجھے خواجہ نصیر کی یاد آئی۔ایک مرتبہ نواب صاحب بتا رہے تھے کہ وہ اور خیربخش دن رات کتابیں پڑھتے ہیں لیکن جب سردار صاحب اسٹیج پر آتے ہیں تو ان کا خطاب سن کر ہمیں رشک کے ساتھ حسد بھی ہوتا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی کے قیام کے بعد جب پروفیسر کرار حسین وائس چانسلر تھے تو ہمیں کبھی کبھار غالب کے مشکل الفاظ،میر کا کلام،فیض کی شاعری سمجھاتے تھے ایک مرتبہ کہا کہ یہ آپ لوگ مجھے آکر کیوں تنگ کرتے ہیں آپ لوگ سردار صاحب اور حنفی صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتے۔امتیاز حنفی ایک نستعلیق اردو دان تھے۔بڑے وکیل اور نیپ بلوچستان کے صدر تھے۔ان کی اردو دانی تو مسلمہ تھی لیکن سردار صاحب کے بارے میں بات سمجھ میں نہیں آئی۔بعد میں پتہ چلا کہ انہیں غالب حافظ اور دیگر شعراءکا کلام بھی یاد ہے۔جو گاہے بگاہے استعمال کرتے تھے۔اس وقت کے بے شمار اساتذہ اس بات پر حیران تھے کہ سردار صاحب نے اتنی اچھی اردو کہاں سے سیکھی ہے۔بلوچی تو ان کی مادری زبان تھی براہوی قومی لیکن ان کی پسندیدہ زبان لاسی تھی۔1996 میں میں ان کا انٹرویو کر رہا تھا تو جاوید مینگل آئے ان سے لاسی بولنے لگے میں نے کہا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یار یہ لاسی مجھ سے چپک گئی ہے اور مجھے بہت پسند ہے جب بھی موقع ملتا ہے یہی زبان بولتا ہوں انہیں فارسی اور انگریزی پر بھی ملکہ حاصل تھی۔1996 میں جب سردار صاحب نے پارٹی بنائی تو میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے قریب ایک مکان میں موجود تھا اور سردار صاحب سے طویل انٹرویو لے رہا تھا۔اچانک نواب خیر بخش وہاں آ گئے تو کہا کہ عطاءاللہ یہ جو آپ نے پارٹی بنائی ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔نواب صاحب کے جانے کے بعد سردار صاحب نے کہا میں بھی کیا پاگل ہوں پاکستان جیسے ملک میں سیاسی جماعت بنائی ہے۔یہاں تو کوئی پتہ بھی اپنی مرضی سے ہل نہیں سکتا۔بھلا ایک سیاسی پارٹی کو کیسے چلنے دیا جائے گا۔ایک سال بعد 1997 میں جب انتخابات ہوئے تو بی این پی مینگل لارجسٹ پارٹی بن گئی۔اختر جان مینگل وزیراعلیٰ بن گئے لیکن1998 میں ان کی پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں ہٹا دیا گیا۔تب نواب خیربخش کی بات سمجھ میں آ گئی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے اور سردار صاحب کی اپنی پیشگوئی بھی درست ثابت ہوگئی۔سردارصاحب نے جوانی میں دو بغاوتوں کی قیادت کی ایک1958 میں اور ایک 1973 میں ان دو ناکام بغاوتوں نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو انہوں نے بلوچستان کے عوام کو بہت بالیدگی اور سیاسی شعور دیا۔1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد وہ بہت افسردہ اور مایوس ہوگئے تھے کافی عرصہ بعد یہ کہا کہ ہمارے وطن کو مستقل ایٹمی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ترقی کے نام پر ساحل پر قبضہ ہوگیا ہے یہ جو سیاست ہے اس کے ذریعے کیا ہوسکتا ہے۔نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد یہ کہا کرتے تھے کہ یار آخر میں آکر اکبر خان ہم سے بازی لے گیا۔سردار صاحب کے برعکس اختر مینگل صلح جو اور امن کے علم بردار تھے۔انہوں نے ہمیشہ پارلیمانی سیاست کو ترجیح دی لیکن حال ہی میں وجاہت کے ساتھ ان کا جو انٹرویو سنا بہت مختلف تھا۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ پاکستانی سیاست سے مایوس ہوچکے ہیں لگتا ہے کہ فیڈریشن اپنا ایک دوست اور ماننے والا کھو بیٹھا ہے۔جس طرح کہ نواب صاحب نے ریفرنڈم سے لے کر آخر تک فیڈریشن کو تسلیم کیا لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ بھی باغی اور سرمچار بننے پر مجبور ہوئے۔اب تک ڈاکٹر مالک بلوچ اور اختر جان مینگل فیڈریشن کے اندر حقوق کے طالب تھے لیکن انہیں بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ مرکز کے ہاں ان کے نظریات کی کوئی قدر نہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا کہا کہ2015 میں جب وہ جلاوطن رہنماؤں سے ملاقات کرنے گئے تھے وہ اور وقت تھا اب وقت بدل چکا ہے۔اس وقت بلوچستان کی75فیصد آبادی37سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اب قیادت نوجوانوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے یہ نوجوان اپنے راستے کا انتخاب کرچکے ہیں اور وہ کسی کی بات نہیں مانیں گے کیونکہ وہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔
اگر پاکستان کے رہنماؤں نے میر غوث بخش نواب بگٹی اور سردار عطاءاللہ کی قدرنہ کی ان کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا گیا تو اور کس کی قدر کریں گے۔نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی نوجوان قیادت اور مرکز یا فیڈریشن ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔لہٰذا مستقبل کے حالات نہایت بھیانک ہوں گے۔میں تو بڑی خونریزی دیکھ رہا ہوں جو کہ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن فریقین کے جذبات شدید ہیں اور وہ ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔مقام افسوس ہے کہ اگر خواتین نے احتجاج کا پرامن راستہ اپنایا تو انہیں بھی غیر ملکی آلہ کار قرار دیا جبکہ پہاڑوں میں برسرپیکار لوگ تو تھے ہی باغی اور غدار لہٰذا ایک ہی آپشن بچتا ہے جس کا اعلان شہبازشریف نے کیا ہے یعنی جو لوگ بھی ہیں انہیں کچل دیا جائے گا جب ریاست طاقت استعمال کرے گی تو سامنے والے بھی ہاتھ پیر ماریں گے نقصان وہ بھی پہنچائیں گے۔یہ سی پیک کہاں جائے گا غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے آئے گی ریکوڈک کیسے بنے گا اوپر سے ایران بھی عالمی ثالثی عدالت جا رہا ہے۔وہ کلیم تو18ارب ڈالر کا کر رہا ہے 9تو ضرور ملیں گے۔اتنی بڑی رقم کون دے گا یعنی حکمرانوں کو نہ سیاست کی پروا ہے نہ معیشت کی فکر ہے جو انہوں نے ٹھان لی بس ٹھان لی۔کوئی لچک میانہ روی اور اعتدال کی گنجائش نہیں ہے۔
میں نے سردار صاحب کی گزشتہ برسی کے موقع پر کہا تھا کہ وہ آزاد وطن میں پیدا ہوئے اور محکومی میں رحلت کرگئے۔انہوں نے علم و آگہی کا بڑا خزانہ اور وراثت کے طور پر سیاسی شعور چھوڑا ہے۔یہ سیاسی شعور بہت بڑا ورثہ ہے۔نوجوان ان سے طویل عرصہ تک رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں