ایف آئی اے بلوچستان کی پہلی مرتبہ پنجاب میں کارروائی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ گرفتار

کوئٹہ:ایف آئی اے بلوچستان کے انٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل نے پہلی بار پنجاب کے اندر کارروائی کرکے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ کو گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے نے پاکستانی تارکین وطن باپ بیٹے کو اغوا اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے والے انسانی اسمگلروں کی مدد کے الزام میں کوئٹہ سے حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے ایک ملزم کو بھی گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق یہ بلوچستان ہی نہیں پورے ملک میں پروینشن آف اسمگلنگ آف مائیگرینٹس ایکٹ 2018 کے تحت درج کیا گیا پہلا مقدمہ ہے جس میں انسانی اسمگلنگ ایجنٹ اور اس کے ایک سہولت کار ملزم کی گرفتاری ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے بلوچستان عبدالحمید بھٹوکی ہدایت پر ڈپٹی ڈائریکٹرانٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل زبیر پیچوہواور اسسٹنٹ ڈائریکٹر امیگریشن جواد حسین کی نگرانی میں ایف آئی اے تفتان کے انچارج انسپکٹر بابر علی نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی۔ سب انسپکٹر وحید مگسی، کانسیٹیبل احتشام پر مشتمل ایف آئی اے بلوچستان کی خصوصی ٹیم پہلی بار پنجاب بجھوائی گئی جس نے سیالکوٹ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ محمد عارف کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ کوئٹہ کے ایک حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے ایجنٹ محمد کو بھی گرفتار کیا جو ایف آئی اے کو ایک اور مقدمے میں بھی مطلوب تھا۔ ملزم محمد کے اکانٹ میں تاوان کی رقم میں سے پچاس ہزار روپے بھیجے گئے تھے جو ملزم نے آگے ایران میں موجود انسانی سمگلرز اور اغوا کاروں کو بھیجے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم محمد عارف نے سیالکوٹ کے علاقے پسرور کے رہائشی پچاس سالہ محمد قدیر بھٹی اور اس کے بیس سالہ آصف قدیر کو مارچ 2020 میں تین لاکھ چالیس ہزار روپے کے عیوض ایران کے راستے قانونی دستاویزات کے بغیر ترکی اور یونان بھیجنے کا کہا تھا تاہم ترکی اور ایران کی سرحد کے قریب محمد قدیر اور اس کے بیٹے کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا اور نامعلوم مقام پر ایک تہہ خانے میں کئی دنوں تک قید رکھا۔ اس دوران اغوا کاروں نے باپ بیٹے کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بناکر اہلخانہ سے رہائی کے بدلے پانچ لاکھ روپے تاوان وصول کیا۔محمد قدیر نے بتایا کہ اغوا کار کپڑے اترواکر ہمیں بجلی کے تاروں سے بے دردی سے مارتے اور ویڈیوز بناکر پاکستان میں موجود اہلخانہ کو وٹس اپ کرتے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ تاوان ادا نہ کیا تو ہمیں مار دینگے جس پر پاکستان میں موجود ہمارے اہلخانہ بہت پریشان تھے۔ انہوں نے تاوان کی ادائیگی کے لئے قرضے لئے، لوگوں کی منتیں کیں، بیٹی کے زیور فروخت کئے۔محمد قدیر نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ میں ایک کمرے کے مکان میں بیوی چار بیٹے بیٹیوں اور بہو کے ہمراہ رہتے ہیں۔شادی شدہ بڑا بیٹا اور بہو کمرے میں سوتے ہیں اور ہم کھلے آسمان تلے صحن میں سونے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ رہنے کیلئے دوسرا کمرا بناسکے۔ چند سال قبل خود فٹبال کی فیکٹری میں کام کے دوران آگ لگنے سے بری طرح جھلس گیااور تب سے محنت مزدوری اور زیادہ مشقت والا کام نہیں کرسکتا جبکہ ایک چھوٹی بیٹی بھی کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوئی اور بروقت علاج نہ کرانے کی وجہ سے فوت ہوگئی۔انہوں نے بتایا کہ وہ غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر ایک بہتر زندگی کی شروعات کیلئے اپنے بیس سالہ بیٹے آصف قدیر کے ہمراہ یونان جانا چاہتے تھے مگر یہ سفر ان کیلئے مزید مشکلات کا باعث بنا۔ مزید قرض چڑھ گئے۔ تقریبا پانچ لاکھ تاوان کی ادائیگی کے بعد اغوا کاروں نے محمد قدیر اور ان کے بیٹے کو رہا کیا تو انہوں نے خود کو ایرانی حکام کے حوالے کیا۔ ایرانی بارڈر فورس نے انہیں ڈی پورٹ کرکے تفتان سرحد پر ایف آئی اے کے حوالے کیا۔ ایف آئی اے نے باپ بیٹے سے تفتیش کرکے ایجنٹ محمد عارف سمیت دو ملزمان کو گرفتار کیا۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق انسانی اسمگلروں اور اغوا کاروں کے اس گروہ میں پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران، ترکی اور یونان میں بیٹھے پاکستانی باشندے بھی ملوث ہیں۔ وہ ایرانی اور کرد اغوا کاروں اور سمگلروں کے ہمراہ غیر قانونی طور پر ایران، ترکی اور یورپ جانے والے تارکین وطن کو اغوا اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں موجود ان کے مقامی ایجنٹ کی ملی بھگت بھی شامل ہوتی ہے۔ڈائریکٹرایف آئی اے بلوچستان عبدالحمید بھٹو نے بتایا کہ اپریل 2018 میں قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے پہلے خصوصی قانون میں غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے والے ایسے تارکین وطن کو ملزمان کی بجائے متاثرین کی حیثیت دی جاتی ہے اور ان کی قانونی مدد کی جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پہلے خصوصی قانون نہ ہونے کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو عدالتوں سے چند ہزار روپے اور چند ماہ کی قید دی جاتی تھی لیکن اس نئے خصوصی قانونی کے تحت کم سے کم سزا تین سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے اور جرم کی سنگین صورت میں 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جاسکتاہے۔انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایف آئی اے کے انٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جواد حسین کی سربراہی میں تمام تفتیشی آفیسران کو نئے قانون سے متعلق خصوصی تربیت بھی فراہم کی ہے تاکہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار ہونے پر عدالتوں سے سخت سے سخت سزائیں دلائی جاسکیں۔یاد رہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن غیر قانونی طریقے سے بلوچستان کے راستے ایران، ترکی، یونان اوردیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران کچھ راستے کی سختیوں، بھوک پیاس اور کچھ ایرانی فورسز کی فائرنگ سے مارے جاتے ہیں۔ جبکہ کئی افراد انسانی سمگلر اور اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو بھاری تاوان کی ادائیگی تک انہیں قید اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔ بڑی تعداد میں تارکین وطن ایران پہنچنے سے قبل یا پھر ایران میں پکڑے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے بلوچستان کے انٹی ہیومن سمگلنگ سرکل کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ایران سے 86 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بے دخل کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں