بلوچ نسل کشی کیخلاف خاران، نوشکی، بسیمہ اور دیگر علاقوں میں احتجاجی ریلیاں
کوئٹہ(یو این اے )بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی کال پر خاران میں بھی اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے حمایت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے مین شاہراہ پر دھرنا دیا دھرنے میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماں سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ریلی میں خواتین بچوں کی بڑی سمیت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سابق ایم پی اے خاران ثنا بلوچ ڈسٹرکٹ چیئرمین میر محمد جمعہ کبدانی اور دیگر پارٹیوں کے سرکردہ رہنماﺅں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ علاوہ ازیں خاران میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حمایت میں بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں خواتین اور بچوں سمیت لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنے کی حمایت پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال پر بسیمہ شہر میں احتجاجی مظاہرہ و ریلی نکالی گئی ریلی کی قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماں نے کی ریلی و احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی بسیمہ ، رخشان یوتھ ایجوکیشنل آرگنائزیشن ، سیاسی جماعتیں ، سوشل ایکٹیویٹیس کے ساتھ دیگر مکتبہ فکر ضعیف العمر نوجوان و بچوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کئے احتجاجی ریلی گورنمنٹ بوائز ھائی سکول بسیمہ سے نکل کر مختلف شاہراہوں سے پیدل مارچ کرتے ہوئے بسیمہ مین چوک پر آکر جمع ہوئے جس نے جلسے کی شکل اختیار کرلی بلوچ یکجہتی کمیٹی ،رخشان یوتھ ، سول سوسائٹی بسیمہ ،سیاسی جماعتیں سمیت سوشل ایکٹیویٹیس و دیگر سوسائٹیز کے رہنماں نے بھی خطاب کیا اس احتجاجی مظاہرے میں شامل شرکا نے اپنے ہاتھوں میں لاپتہ کی تصویروں کے ساتھ بلوچ نسل کشی بلوچ نوجوانوں کی ماروئے عدالت قتل انکی لاپتہ کرنے کو بند کرنے کے جملے سے نبشتہ پلے کارڈز و بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے احتجاجی مظاہرین نے وقفے وقفے سے جوابی کورس پر شدید نعرے بھی لگائے اور اداروں سے یہی مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کو اپنے بنائے گئے آئین و قانون کے تحت منظر عام پر لا کر عدالتوں میں پیش کیا جائے دس پندرہ سال لواحقین پر کیسے گزر رہے انہون نے کہاکہ پاکستان اپنے آئین و قانون کی خود وائلیشن کررہی ہے انکے آرٹیکل وضاحت کرتے ہیں کے تمام شہریوں کی حقوق برابر انکے احترام کیا جاتاہے کہاں ہیں وہ آرٹیکل ملک کے قانون و آئین انہوں نے کہا ہے کہ ادارے بلوچ قوم کی آواز کو طاقت سے دبا نہیں سکتی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی طاقتور ملک نے کسی بھی مظلوم کی آواز کو دبا نہ سکا ہے اس سے قبل بھی ملکی اداروں نے بنگلہ دیش کی آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن کیا ریزلٹ نکلا ، انہون نے مزید کہاکہ لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کے آواز کو ڈی وائڈ کرنے کیلئے ڈیتھ اسکواڈ کے کیمپ ان کے سامنے لگا کر خود ثابت کررہے ہیں کہ بلوچستان میں لاقانونیت کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا احتجاج اور ہر قسم کا مظاہرہ قانونی آئینی اور پرامن طریقے سے ہیں جو عناصر اس احتجاج میں شامل ہوکر دوسرے ایجنڈے کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ ہم میں نہیں ہیں ہمارا احتجاج لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ نوجوانوں کی ماروئے عدالت قتل کے خاتمے تک جاری رہے گا۔