سیاسی جماعتوں کے رویے سے تنگ بلوچستان کی خواتین کا آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ
کوئٹہ (رپورٹ: یحییٰ ریکی) بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے رویے سے تنگ خواتین نے بھی آزادحیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کیاہے، صوبائی اسمبلی کے حلقہPB-43کوئٹہ سے آزادامیدوارثناءدرانی نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں پانچ فیصدکوٹہ پوراکرنے کیلئے خواتین کوٹکٹ جاری کرتے ہیں، حالیہ انتخابات کیلئے خواتین کوایسے حلقوں سے ٹکٹ جاری کی گئی ہے جہاں ان کاکوئی ووٹ بنک نہیں، جمہوریت کی دعویداراوربھٹواِزم کاپرچارکرنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویئے سے مجھے مایوسی ہوئی، ژوب سے تعلق رکھنے والی خاتون کومستونگ سے ٹکٹ جاری کرنا میرٹ کی پامالی اورخواتین کو نظراندازکرنے کی واضح مثال ہے، خواتین، نوجوان اوراقلیتوں کی ترقی اوران کے مسائل حل کرنااولین ترجیح ہے، آنے والے انتخابات میں عوام نے موقع دیاتواسمبلی فلورپرقانون سازی کرکے نچلے اورنظراندازطبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اورخواتین کے حقوق کیلئے قانون سازی کروں گی۔ درانی نے کہا کہ خواتین کے حوالے سیاسی جماعتوں کارویہ مایوس کن ہے، خواتین سیاسی ورکرجماعتوں میں رہ کرکام کرتے ہیں مگرانہیں نظراندازکرکے بااثرسیاسی گھرانوں کے خواتین کو ٹکٹ جاری کی جاتی ہے،انہوں نے کہا کہ اکثر سیاسی جماعتیں صرف پانچ فیصدکوٹہ پوراکرنے کیلئے خواتین کوجنرل نشستوں پر ٹکٹیں جاری کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے خواتین کوایسے علاقوں سے ٹکٹ جاری کیاجاتا ہے جہاں ان کاووٹ بنک نہیں اورنہ ان کے جیتنے کی کوئی گنجائش ہوتی ہے،پیپلزپارٹی کی طرح دیگرسیاسی جماعتوں نے بھی اس کی مثال قائم کی اورمجھے پارٹی قیادت کے رویئے سے مایوسی ہوئی، انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے ژوب سے تعلق رکھنے والی خاتون کومستونگ سے ٹکٹ جاری کیا جبکہ مستونگ کی خواتین کوپشین سے ٹکٹ جاری کی گئی ہے، سیاسی جماعتیں تنظیم سازی اورجلسے جلوس کے وقت خواتین ورکروں کویادکرتے ہیں مگرجب اقتدارکاوقت آتا ہے توورکروں کویکسرنظراندازکردیاجاتاہے،انہوں نے کہا کہ بھٹواَزم ہمیشہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بات کرتاہے، اوربینظیربھٹوشہیدپارٹی کی سربراہ رہی ہیں اورانہوں نے خواتین کے حقوق کی جدوجہدکی،پاکستان پیپلزپارٹی وویمن ونگ کی سربراہ فریال تالپورنے ہمارے تحفظات کواس طرح نہیں سنااورنہ اس بارے میں پارٹی قیادت کی جانب سے کوئی پیشرفت ہوئی ہے، پیپلزپارٹی کی قیادت سے مجھے یہ امیدنہیں تھی، انہوں نے مزیدکہا کہ بلوچستان میں جہاں جاگیرداراوربااثرلوگ سیاسی میدان میں اترکرپیسے کے زور پرووٹ خریدرہے ہوں توایسی صورتحال میں خواتین کیلئے انتخابات میں حصہ اتناآسان کام نہیں ہے، خواتین ورکروں کاجس طرح استحصال کرتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے مگرناممکن نہیں کسی کوپہلاقدم اٹھاناچاہئے تھا، میں نے انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کیا،انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ دیکھیں توآج تک پارلیمنٹرینز قانون کے دستاویزکوپڑھتے تک نہیں اور دستخط کرکے اس کو آگے بھیجتے ہیں،تمام منصوبے روڈاورنالیوں کے ہیں اوراس میں خواتین کاتحفظ، معاشی ترقی، اسکل ڈویلپمنٹ کاکوئی منصوبہ نظرنہیں آتا،انہوں نے کہا کہ جب تک عام خاتون کانمائندہ اسمبلی میں نہیں آتا تب تک ہمارے حقوق کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سیاسی جماعتوں اورنام نہادالیکٹ ایبلزسے تنگ آچکے ہیں اورمیں نے ڈیجیٹل مہم شروع کیا،ڈورٹوڈورمہم بھی چلارہی ہوں،اورلوگوں کی جانب سے مجھے مثبت تاثرمل رہا ہے اوروہ میری حوصلہ افزائی کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ خواتین کے پاس بہترسیاسی وژن ہے مگروہ ٹھیکیداری نہیں کرسکتے، مگرسیاسی جماعتیں اورپارٹی قیادت ٹھیکیداروں کوساتھ لے کرچلناچاہتے ہیں،اگرعوام نے مجھے کامیاب کرایاتومیری کوشش ہوگی کہ خواتین اورنوجوانوں کیلئے قانون سازی کروں،انہوں نے کہا کہ بلوچستان اب تک یوتھ پالیسی سے محروم صوبہ ہے، ہمیں نوجوانوں پرتوجہ دے کرانہیں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے،اقلیتوں اورخواتین سمیت ایسے لوگ جن پرکسی نے توجہ نہیں دی انہیں آگے لائیں گے۔اس حوالے سے ہم نے پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان کے ترجمان سربلندخان جوگیزئی سے بارہارابطہ کیااورواٹس ایپ پرانہیں سوالات ارسال کئے مگرانہوں نے ہمارے سوالات کاکوئی جواب نہیں دیااورکال منقطع کرکے خامو ش ہوگئے۔