بلوچستان اسمبلی اجلاس میں پیش کی جاینوالی متعدد قرار دادیں منظور

کوئٹہ (سٹاف رپورٹر)اجلاس میں اپوزیشن لیڈرملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلامی اقدار کے خاتمے اوراسلامی معاشرہ کو تباہ کرنے کی غرض سے اسلامی اقدار کے دشمن مختلف حربوں کے ذریعے ملک میں جنسی بے راہ روی پھیلانے کی منظم منصوبہ بندی کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کی واضح مثال یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم کا نوجوان طالبہ کے ساتھ بغل گیرہونے کی ویڈیو وائرل کئے جانا ہے مزید برآں 8مارچ کو ملک کے تمام بڑے شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد کرکے شرم و حیاء کا جنازہ نکالا گیا جبکہ بلوچستان کے غیور عوام اسلامی روایات کے امین ہیں اورایک اسلامی ملک کی پہچان اسلامی شریعت کے اصولوں کی پابندی شرم و حیاء سے ہوتی ہے اورایسے ہی معاشرے میں عصمت و عفت کا اسلامی اصول کے مطابق تحفظ کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی اقدار سے عاری معاشرے میں معیشت،امن و امان اور عدل و انصاف جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جبکہ ہمارا دین مقدس انسانی حقوق کا مکمل تحفظ کرتا ہے اور تمام طبقات اورخونی رشتو ں کے حقوق،عزت،عفت ناموس اور مقام کے قدر کا تعین کرتا ہے اس لئے تمام مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ لادینیت پھیلانے والے ایجنڈے کی بیخ کنی کیلئے اپنا کردارادا کریں لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبائی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ملک میں لادینیت،اسلامی اقدار کی پامالی،فحاشی،بے حیائی جیسی لعنتوں سے پاک کرنے اور ہراس سازش جو اسلامی اصولوں اور اسلامی معاشرے میں بگاڑ کا سبب ہے کی بیخ کنی کی جائی نیزمکمل اسلامی معاشرے کے قیام کو بھی یقینی بنائے۔قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ معاشرتی مسائل سے دوچار ہے اگرا س سلسلے کو جلد نہ روکا گیا تو اسکا نقصان پورے ملک اور 22کروڑ عوام کو ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ قانونی اصول ہے کہ معاشرے نہ تو دنوں نہ مہینوں میں بنتے اور نہ ہی بگڑتے ہیں معاشروں کی تشکیل اور ٹوٹنے میں وقت لگتا ہے لیکن اسوقت ہمارامعاشرہ بری طرح بگاڑ کا شکار ہے اور فوری توجہ طلب ہے آج ہمارے جو حالات ہیں اسکی ذمہ داری حکمرانوں،بیورو کریسی و تمام ذمہ داروں پرعائد ہوتی ہے۔انہوں نے زوردیا کہ معاشرتی بگاڑ کا راستہ روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں بعد ازاں ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔جمعیت علماء اسلام کے عبدالواحد صدیقی نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ توبہ کاکڑی جو چھ یونین کونسلز پر مشتمل ہے کی آبادی 50ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جس کی سرحدیں ایک جانب قلعہ سیف اللہ،قلعہ عبداللہ اور ژوب جبکہ دوسری جانب افغانستان سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں امن وامان کا مسئلہ رہتا ہے جس کی واضح مثال حالیہ دنوں ڈکیتی،چوری اور بدامنی کی وارداتوں کے نتیجے میں 10کے قریب معصوم اور بے گناہ شہریوں کا قتل کیاجانا ہے اگر مذکورہ چھ یونین کونسلز کو تحصیل کا درجہ دیا جائے تو بدامنی کی وارداتوں میں کسی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ توبہ کاکڑی کی آبادی میں اضافہ اور امن و امان کی صورتحال کو مدنظررکھتے ہوئے توبہ کاکڑی کو تحصیل کا درجہ دینے کو یقینی بنائے تاکہ وہاں امن وا مان کا مسئلہ پیدا نہ ہواور ساتھ ہی وہاں کے لوگوں میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران اور پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے نے قرارداد کی حمایت کی صوبائی وزیرسلیم کھوسہ نے کہا کہ ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں مالی وسائل کے باوجود وزیراعلیٰ جام کمال خان اور صوبائی حکومت نے عوامی مسائل کے حل کو ترجیحات میں شامل کیا ہے صوبے میں اضلاع بنانے سے متعلق کام ہورہا ہے سفارشات کابینہ کو بھیجیں گے فیصلہ کابینہ کرے گی اگر عبدالواحد صدیقی پہلے آگاہ کرتے تو انکے مسئلے کو بھی بورڈ کے اجلاس میں شامل کرتے تاہم انہوں نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ آئندہ اجلاس میں توبہ کاکڑی کو تحصیل کا درجہ دینے پرغور کیا جائے گا۔جمعیت علماء اسلام کے زابد علی ریکی نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اورپسماندہ صوبہ ہے اسکی آبادی منتشر اور دوردراز علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے یہاں تاحال پی ڈی ایم اے کے ضلعی دفاتر اور سینٹرز کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے جس کی وجہ سے قدرتی آفات اور حادثات رونما ہونے کی صورت میں لوگوں کو ایک بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پرصوبے کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز اور تحصیل کی سطح پر بالعموم اور واشک میں بالخصوص ضلعی دفاتر وسینٹرز کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ کسی بھی آفت اور ہنگامی صورتحال میں لوگوں کی مدد اور دادرسی کی جاسکے۔قراداد کی موزونیت پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان وسیع رقبے پرپھیلا ہواہے ہنگامی صورتحال میں تمام علاقوں میں کوئٹہ سے امداد بھیجی جاتی ہے جس میں کئی دن لگ جاتے ہیں ضلعی سطح پر پی ڈی ایم اے کے سینٹرز بنانے سے عوام کو فوری امداد مل سکے گی۔ثناء بلوچ نے کہا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ ہرڈویژنل ہیڈکوارٹر میں پی ڈی ایم اے کی سینٹرز بنائے جائیں گے رخشان ڈویژن کا ہیڈکوارٹر خاران ہے مگر وہاں کی بجائی کہیں اور سینٹر بنادیا گیا ہے۔ انہوں نے زوردیا کہ خاران میں پی ڈی ایم اے کا سینٹربنایا جائے۔صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں دفاتر بنائے گئے جلد ضلعی اور تحصیل سطح پر بھی سینٹرز بنائے جائیں گے۔انہوں نے ثناء بلوچ کویقین دہانی کرائی کہ رخشان ڈویژن میں پی ڈی ایم اے کا سینٹر اگر خاران میں نہیں بنایا گیا تواسے چیک کریں گے۔بعدازاں ایوان نے قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انتظامی اعتبار سے سات ڈویژن ہیں اور رخشان ڈویژن کو قائم ہوئے چارسال کا عرصہ ہوا ہے لیکن تاحال محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے رخشان ڈویژن کی ملازمتوں و دیگر انتظامی معاملات میں کوٹہ کا تعین نہیں کیا ہے جس سے علاقے کے عوام اور نوجوانوں میں تشویش و احساس محرومی پائی جاتی ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ رخشان ڈویژن کی مکمل بحالی کو یقینی بنانے کیلئے تمام محکموں کو فی الفور اقدامات اٹھانے کے احکامات جاری کرے اپنی قرارداد کی موزونیت پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رخشان ڈویژن کوئٹہ اور قلات کے چار اضلاع لیکر بنایا گیامگر پبلک سروس کمیشن کے تحت مختلف اسامیوں کیلئے ہونے والے امتحانات میں رخشان ڈویژن کاکوئی تذکرہ تک نہیں حالانکہ رخشان قلات ڈویژن کے بعدصوبے کا دوسرابڑا ڈویژن ہے اس کے نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ طے کیا جائے۔انہوں نے تجویز دی کہ آئندہ بجٹ میں صوبے کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے4اربن سیکٹر بنائے جائیں انکے تحت عوام کو سہولیات اور نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں جمعیت علماء اسلام کے زابد علی ریکی نے بھی قرارداد کی حمایت کی جس کے بعد ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظورکرلی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں