جعلی کروناادویات کی فروخت کے اثرات سنگین ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

لندن: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں کورونا وائرس بارے جعلی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے سنگین مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔افریقا میں فروخت ہونے والی جعلی ادویات کے بارے میں بھی علم ہوا ہے جہاں جعل ساز مارکیٹ میں پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ بنیادی ادویات کا ذخیرہ کر رہے ہیں تاہم بڑی تعداد میں طبی سامان تیار کرنے والے دو ممالک چین اور بھارت میں لاک ڈاؤن اور ادویات کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے جعلی ادویات کی گردش بڑھ رہی ہے،جس ہفتے عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو وبائی بیماری قرار دیا تھا اس کے بعد صرف سات روز میں انٹرپول کے عالمی فارماسیوٹیکل کرائم فائٹنگ یونٹ نے 90 ممالک میں 121 گرفتاریاں عمل میں لائیں جس دوران ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا خطرناک طبی سامان اور ادویات کو قبضے میں لیا گیا۔ملائیشیا سے لے کر افریقی ملک موزمبیق تک پولیس افسران نے ہزاروں جعلی ماسک اور ادویات ضبط کیں، ان میں سے بہت سوں نے کورونا وائرس کے علاج کا دعوی کیا تھا۔انٹرپول کے سیکرٹری جنرل جورجین سٹاک کا کہنا ہے کہ صحت عامہ کے بحران کے دوران ایسی جعلی طبی اشیاء کی غیر قانونی تجارت، لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم یا درمیانی آمدن والے ممالک میں جعلی ادویات کی اس تجارت، جس میں ایسی دوائیں شامل ہیں جن میں کوئی غلط یا غیر فعال اجزا شامل ہیں، کی مالیت 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔بھارت میں کئی دوا ساز کمپنیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب اپنی معمول کی گنجائش کا صرف 50 سے 60 فیصد کام کر رہی ہیں، چونکہ بھارتی کمپنیاں افریقا کو تمام بنیادی ادویات کا 20 فیصد حصہ فراہم کرتی ہیں تو افریقی ممالک اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔افریقی ملک زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا کے ایک دوا ساز افرایم فیری نے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی اس تناؤ کو محسوس کر رہے تھے،ادویات پہلے ہی کم ہو رہی ہیں اور ہم یہ کمی پوری نہیں کر پا رہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے، ادویات کی فراہمی حاصل کرنا بہت مشکل ہے خاص طور پر ضروری ادویات جیسے کہ اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی میلریل۔

اپنا تبصرہ بھیجیں