پارلیمانی سیاست میں گالی

تحریر: رشید بلوچ
لفنگوں کی بیٹھک گالیوں سے شروع ہوتی ہے اور آخری گالی تک اختتام کو پہنچتی ہے، سب سے زیادہ گالی بکنے والا لفنگے سردار مانا جاتا ہے، پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں زات کو ہدف تنقید بنانا، گالم گلوچ کرنے کی ریت پرانی ہے،سیاست میں گالی کو رواج دینے کا آغاز ن لیگ کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جعلی و من گھڑت طریقے سے سیاسی مخالفین کی کردار کشی ن لیگ کا وطیرہ رہا ہے، ن لیگیوں نے اپنے عین شباب میں پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بشہید بے نظیر بھٹو سے متعلق جو خرافات بکی تھیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں، سابقہ دور میں ن لیگ کا واسطہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت سے پڑا تھا جہاں گالی کے بدلے گالی دینے کونہیں ملتی تھی، اس لیئے گالیوں کی سیاست پروان نہیں چڑ سکی، مسلم لیگ ن کے موجودہ سر خیل رانا ثنا اللہ نے اپنے سیاست کی شروعات پیپلز پارٹی سے کی تھی، ایک بار رانا صاحب نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر سے متعلق زاتی قسم کی زباں درازی کی تھی،بے نظیر بھٹو نے رانا ثنا اللہ کو اپنی جماعت سے باہر نکال پھینکا،اسی رانا ثنا اللہ کو میاں صاحب نے اپنی بیٹی کو گالی بکنے کے انعام میں ن لیگ کے سائباں میں پرورش کرکے فربہ بنا دیا، چھٹکلے باز رانا ثنا اللہ ہی نے پرویز خٹک کو,, تھیلی پہلوان،، کا خطاب عطا فرمایا تھا، اس وقت ن لیگ کے اس حرکت کو لوگ بے شرمی سے تعبیر کرتے تھے لیکن مسلم لیگ ن کے سفید ریش سیاستداں روحیل اصغر کی گالی دینے کو پنجاب کا کلچر بتانے پر رانا ثنا اللہ کو ن لیگ میں شامل کرنیکی کنفیوڑن رفع ہوگئی،روحیل اصغر نے پہلی بار ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ گالی سننے یا بکنے کے احساسات الگ الگ ہوتے
ہیں، یعنی اگر کوئی آپ کو ماں بہن کی گالی دے رہا ہو،گالی سن کر آپ خوشی محسوس کر رہے ہیں تو اسے Good Feeling کہا جاتا ہے، جب کراہت محسوس ہورہا ہے توBad Feeling۔یہ ایسا منطق ہے جسے ن لیگ والے ہی سمجھا سکتے ہیں،ہمیں پہلی بار پنجاب کے ایک بزرگ سیاستداں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ گالیاں بکنا پنجاب
کی ثقافت ہے۔ن لیگ کو 30سالہ سیاست میں گالی کے جواب میں گالی نہیں پڑی، پہلی بارانکا واسطہ پی ٹی آئی والوں سے پڑا ہے جہاں گالی کے بدلے میں گالیوں کی برسات ہورہی ہے اور ن لیگی bad۔ goodکے احساسات لئے خوب انجوائے کر رہے ہیں، اگر گالی بکنا کلچر ہے اس کلچر نے پنجاب سے باہر خیبر پختونخواہ کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، پارلیمنٹ کے اندر گالم گلوچ کے مچھلی بازار میں پختونخواہ کے غیرت مند پشتون بھی اچل،اچل کر اپنی مال مٹیریل بیچنے میں پنجاب والوں سے پیچھے نہیں رہے، تمام نظارہ دیکھ کر ہم دل ہی دل میں دعا گو تھے کہیں ہمارے بلوچستانی,, مرد مجاہد،، اٹھ کر اس ثقافت کا حصہ دار نہ بن جائیں، شکر ہے ہمیں بطور بلوچستانی اس خفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کونکہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی اور عوامی اجتماع میں اس طرح کے,, کارناماہے فتوحات،، سر انجام دیئے جا چکے ہیں۔۔
روحیل اصغر کیلئے بھلے ہی گالیاں ثقافت کا حصہ ہوں لیکن پارلیمنٹ کے اندرسالانہ بجٹ سیشن میں جس بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اس سے پارلیمنٹ کے وقار کی دھجیاں اڑا ئی گئیں، دنیاں بھر کی نظر میں پاکستانی پارلیمنٹ کی عزت و توقیر ایک پائی کی نہیں بچی ہے، یہی سیاست داں جب فلور آف دی ہاؤس میں کھڑے ہوتے ہیں سب سے پہلے اسے معزز ایواں کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں،پارلیمنٹ جس میں قانون سازیاں کی جاتی ہیں، ملکوں کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں،اسی پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے خود گالم گلوچ کرکے توہین پارلیمان کا سبب بن رہے ہیں،بد بو دار روایت کی بنیاد بننے والے پارلیمنٹرین اپنے حواریوں سے پاک شفاف رویے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں،سیاسی مخالفت کو عداوت و دشمنی کی نہج تک لے جانے میں نقصان سیاسی
جماعتوں کا ہی ہوگا، کمیشن و کرپشن نے پہلے ہی سے جمہوریت و جمہوری نظام کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ہے، معاشرے میں سیاست مزاق بن کر رہ گئی ہے، پارلیمنٹ میں سیاسی تربیت سے عاری عناصر کی ایک جم غفیر موجود ہے جو نسل در نسل عوام پر حکمرانی کو اپنا پدری حق سمجھتے ہیں،خرابیئے بسیار کے باوجود
پارلیمنٹ کے اندر چند صاف ستھرے با کراد لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے عوام کا ایک طبقہ پارلیمان کو معاشرے کی بہتری کا زریعہ سمجھتے ہیں،پارلیمنٹ پر سے عوام کے اعتبار کو بحال رکھنا سیاستدانوں کی زمہ داری ہے،جس دن پوری طریقے سے پارلیمان پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو اسکے بعد دامے،۔درمے۔سخنے جو نام نہاد جمہوریت باقی رہ گئی ہے اسے لپیٹنے میں زرا بر بھی دیر نہیں لگے گی۔
بجٹ سیشن سے پہلے ن لیگ نے یہ طے کر لیا تھا اجلاس میں ہلہ گلہ کرکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جائے گی اور اس کیلئے باقاعدہ تیار ی پہلے سے کر دی گئی تھی، لیکن شاید ن لیگ یہ بھول رہی تھی کہ اسکا واسطہ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے مراد سعید جیسوں سے پڑ رہا ہے،سیاست میں گالم گلوچ کا ن لیگ نے جو پودا بویا تھا اسکی آب یاری اب پی ٹی آئی کر رہی ہے،ن لیگ جس طریقے سے بنی ہے اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے ن لیگ کی 30سالہ سیاست کے پل کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، ان 30 سالوں میں ن لیگ کے اندر سیاسی سنجید گی آجانی چاہئے تھی لیکن بلوچی کے ضرب المثل ہے کہ,, علت رو عادت نہ رو ِ،، پی ٹی آئی سے سنجیدگی کا اس لیئے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ن لیگ کی سابقہ ادوار کی طرح پی ٹی آئی کی ہنی مون ابھی شروع ہوگئی ہے، پی ٹی آئی کو سیاسی پختگی میں ن لیگ کی طرح 30سال مزید درکار ہوں گے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ جب ن لیگ میں اتنے عرصے میں سیاسی میچورٹی نہیں آسکی ہے تو تحریک انصاف میں کہاں سے آئے گی؟روحیل اصغر کیلئے گالم گلوچ ثقافت کا حصہ ہوسکتا ہے لیکن وہ اپنی ثقافت کو چاروں صوبوں کے نمائندہ پلیٹ فارم پر اپلائی نہیں نہ کریں، ویسے بھی گالم گلوچ کیلئے پاکستانی ٹی وی چینلز دستیاب ہیں جی بھر کر اپنی ثقافت کی نمائش ٹی وی چینلز پر کیا کریں، اس سے ٹی وی چینلز کی ٹی آر پی بڑھے گی اور ان حضرات کا ثقافت بھی زندہ رہے گا، اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ میں بد زبانی کرنے اور سب سے زیادہ فحش گالیاں بکنے والے چند حکومتی او ر اپوزیشن اراکین کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے ہوئے ان پر پارلیمنٹ میں آنے کی پابندی لگا دی ہے،پاکستان کے آئین کے تحت اسپیکر کسی رکن پارلیمنٹ کی حد وحدود پار کرنے کی یہی سزا دے سکتے ہیں کیونکہ عوامی نمائندوں کیلئے اس سے بڑی سزا ابھی تک متعین نہیں کی گئی ہے، پارلیمنٹ سے چھٹی دلانا کوئی سزا نہیں بلکہ یہ چھٹیاں انجوا کرانے کا انعام ہے، پارلیمنٹ کو مشترکہ طور پر بد زبان اراکین کیلئے ایسی قانون بنا دینا چاہئے تاکہ خلاف ورزی کرنے والے کو انعام نہیں بلکہ حقیقت میں سزا کاگمان ہو،اسکے بعد شاید پارلیمنٹ کے ھال میں ایسے خرافات بکنے آواز نہ گھونج سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں