شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ کا قومی کردار اور موجودہ سیاسی تقاضے
تحریر: صمند بلوچ
14 جولائی کی وہ دن سوگوار دن جب تک جولائی کا مہینہ شروع ہوتا یے تو دل میں بے یقینی کی ایک کیفیت سی پیدا ہوتی یے کہ بلوچ قوم کے وہ عظیم دانشور سیاستدان حبیب جالب ہمارے درمیان موجود نہیں شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی شہید کی فکر قوم کی اصل زندگی ہوتی شہید کے بنائے گئے سیاسی اصول ہی قوم کے سیاسی نظریے کے بنیاد ہوتے ہے ۔
شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ کا شمار بھی دنیا کے ان عظیم ہستیوں میں شمار ہوتا ہے جہنوں نے طلباء سیاست سے لیکر سیاسی جماعتوں اور ایوانوں تک میں صرف مخلصی کو ہی سیاست کا ذریعہ بنایا کوئی بھی اسمبلی و ایوان کو جدوجہد کا صرف چھوٹا سا زریعہ تصور کیا لیکن انہوں نے اسکو کبھی مقصد نہیں بنایا کبھی مرعات کو سیاسی کلچر کا حصہ نہیں بنایا بلکہ جدوجہد ہی انکے اصل مقصد تھا اور انہوں بلوچ قوم کی شعوری رہنمائی کی ۔
شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ سیاسی قومی سیاست کے ساتھ عوامی خدمت کو بھی اپنے سیاست کا اولین ترجعی سمجھتے تھے انہوں نے تمام مسائل پر ہمیشہ آواز بلند کی اسمبلی فورم سے لیکر پریس کلب و مظاہروں میں وہ ہمیشہ عوامی مسائل پر پیش پیش رہے ۔شعبہ تعلیم میں شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ سے اپنے زمین کو گرلز اسکول میں تبدیل کیا جہاں و طالبات کو یونفارم اور کاپیاں و دیگر ضروریات اپنے جیب سے دیتے تھے وہ خواتین کی سیاست میں باشعور شرکت داری کو حوصلہ افزاء سمجھتے تھے
گلزمین بلوچستان کے جدوجہد میں ہزاروں شہداء کے بدولت قومی سیاسی شعور و حقیقی سیاست میں دنیا جہاں کے ترقی یافتہ اقوام بھی بلوچ سیاست کو تسلیم کرچکے یے بلوچستان کے دیگر ہزاروں شہداء نے قومی سیاست جہد و وطن کی خاطر اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان میں سیاسی کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا جنکے شہید ہونے سے جو خلاء پیدا ہوچکی ہے جو کبھی پر نہیں کی جاسکتی شہید حمید جان بلوچ، شہید فدا بلوچ ، شہید غلام محمد بلوچ، شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ، شہید مولابخش دشتی، شہید عطاءاللہ محمد زئی, شہید نورالدین مینگل شہید ملک نوید دہوار، شہید چیئرمین منظور جان بلوچ، ناصر بلوچ و دیگر ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کے زندگی میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ تھی کہ شہداء کبھی بھی تقسیم درتقسیم و قوم کو مزید ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے قائل نہیں تھے بلکہ اتحاد و یکجہتی کے زریعے ہی قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے قائل تھے انہوں نے سیاسی طریقہ کار وہ طرز سیاست پر اختلاف رکھا لیکن کبھی بھی سرکلنگ مکالمہ و عملی شعور کو کمزور نہیں ہونے دیا سیاسی اختلاف کو کبھی زاتی انا نہیں بنایا بلکہ شدید اختلافی صورتحال میں بھی مشترکہ نکات پر جدوجہد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی
بی ایس او نے ہر دور میں تمام بلوچ شہداء و فکر شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ کو مضبوط کیا اور آج بلوچ نوجوان جن حالات سے گزر رہے ہے کہ ایک جانب قومی سیاست پر تعلیمی اداروں میں قدغن طلباء سیاست کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال تعلیم ددشمن ہتھکنڈوں کے نام پر یلغار کی سی کیفیت ہے طلباء سیاست پر پابندی عائد کرکے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے زندان میں بند کی جارہی ہے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی منشیات کلچر و منفی سرگرمیوں کو عروج دے کر نوجوان کو شعوری طور پر کمزور کیا جارہا ہے جسکے تحت حقیقی سیاست پر مکمل قدغن کی سی صورتحال ہے پہلے صرف تنظیموں کے درمیان سیاسی نکات پر اختلاف کی سی صورتحال تھی مرکزی پالیسی و سیاسی فیصلے نظریاتی بحث و مباحثے کے باعث تھے لیکن اب عہدے مرعات و لالچ سیاسی کارکن کو کمزور کرکے کمزور کررہے ہے ان حالات میں بلوچستان کے تمام سیاسی کارکنوں بلخصوص بی ایس او کے باشعور سنگتوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ عہدوں و مرعات کے بجائے قومی نظریے کے بنیاد پر بحث و مباحثے و تنقید برائے اصلاح کو مضبوط کرے ناکہ منفی غیر سیاسی رجحانات کے بنیاد پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کا زریعہ بنے یقینی طور پر ہر سیاسی کارکن خود کو شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ کا سیاسی و علمی وارث کہلانے کا حق دار ہے لیکن شہید جالب کے فکر کا وارث صرف وہی سیاسی کارکن بن سکتا ہے جو کتاب قلم و سرکلر کے بنیاد پر سیاست کو مضبوط کرے لڑائی کے بجائے بحث و مباحثے کو اہمیت سے اختلاف کی بنیاد کو سمجھے اسے اپنے انا کا مسئلہ نہ بنائے جب تک جالب شہید و دیگر قومی شہداء کے فکر کی وارثی نہیں کرسکتے اس وقت تک ہم صرف خود کو اور قوم کو دھوکہ دینگے اور نوجوان وقتی گروہ بندی کا شکار ہوکر اصل قومی سیاست سے کنارہ کش ہوتے رہیں گے۔