پروم کے عوام کی بے چینی اور کروناوائرس کا ڈر

تحریر:رفیق چاکر
لگتا ہے کہ وقت کے حکمرانوں اور زمہ داروں کو پروم جیسےایک پسماندہ علاقے کے عوام کی زندگی سے اپنی کمائی زیادہ عزیز ہے اور پروم کے غریب عوام کو کرونا وائرس جیسی ایک خطرناک مرض کی منہ میں دھکیل کر اُنہیں ایران سے آنے والے گاڈیاں اور کرونا زدہ افراد زیادہ عزیز ہیں جن کی آمدورفت سے اُنہیں ہر گزرتے دن میں کروڈوں روپے بھتہ کی شکل میں مل رہے ہیں.اگرچہ وقت کے حکمران اور عوام کی جان و مال کے زمہ دار یہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اُنہیں پروم سے ملحقہ ایران بارڈر سے پیسے مل رہے ہیں اور کاروباری طبقہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ اُن کو پہلے سے زیادہ منافع مل رہا ہے لیکن شاید وہ اس گھمبیر مسئلہ پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں کہ شاید کروناوائرس کا اُن تک پہنچنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے.اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرکے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت ملک بھر میں ایران سمیت دیگر ممالک کے بارڈر کو بند کرنے کی جو اطلاعات مل رہی ہیں ان میں شاید کچھ علاقوں کے بارڈر بند کئے گئے ہیں لیکن اس وقت ایران سے ملحقہ سرحدی علاقہ پروم میں ایران کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پروم میں داخل ہو رہے ہیں اور رات کے وقت پروم جیسا ایک پسماندہ علاقہ کراچی جیسے ایک شہر کا منظر پیش کر رہا ہے اور ایران کے جن علاقوں میں کروناوائرس نے تباہی مچادی ہے اُن علاقوں سے سینکڑوں کی تعداد میں گاڈی مالکان اور ڈرائیورز پروم میں داخل ہو رہے ہیں.جس سے اس وبا کے پھیلنے کے امکانات اور خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا.ایف سی، لیویز فورس سمیت دیگر فورسز کے لوگ ایرانی ساختہ گاڈیوں کے مالکان اور ڈرائیورز سے بھتہ وصول کر رہے ہیں اور کاروباری لوگ چار پیسے کمانے کی لالچ سے علاقے کے غریب عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں.ایران سے آنے والے افراد کی موجودگی اور کرونا وائرس جیسی ایک خطرناک مرض کے پھیلنے کی ڈر سے علاقہ مکین اس وقت زہنی اذیت کا شکار ہیں. پروم سے پھیلنے والی وبا کروناوائرس کا مرض حکومت وقت کے حکمرانوں اور عوام کی مال و جان کی حفاظت پر معمور ایف سے اور لیویز کے جوانوں کے گھر اور اُن کی فیملی تک پہنچ سکتا ہے.بھتہ کے نام سے کمائے ہوئے پیسے شاید اُن کی نصیب نہ ہوں اور غریب سے زیادہ یہ وبا اُن کے محل نما گھروں کے دروازے تک دستک دے.انتظامیہ نے بازار بند کرکے اس وبا کے پھیلنے کے عمل کو روکنے کا جو ڈرامہ رچایا ہے اُن کو چاہیئے کہ ایران سے آنے والے افراد کی پروم سمیت دیگر علاقوں پر داخل ہونے پر مکمل.پابندی لگا کر پروم کے عوام کے ساتھ اپنے فیملی کے دیگر افراد کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کی کوشش کریں.اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوا تو یہ مرض چند دنوں میں گھر گھر دستک دے کر تباہی مچا دے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں