امریکا نے سعودی عرب سے اپنے جدید ترین میزائل سسٹم نکال لیے

ریاض:امریکا نے سعودی عرب میں نصب کردہ اپنے جدید ترین میزائل سسٹم نکال لیے اور ساتھ ہی پیٹریاٹ بیٹریاں بھی واپس بلا لی ہیں۔ یہ بات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے بہت سی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد سامنے آئی ہے۔

دبئی سے ہفتہ گیارہ ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب سے امریکا کے انتہائی جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کا یہ انخلا حالیہ ہفتوں میں عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر دیکھی گئی ہے، جب خلیج کے علاقے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی ملک سعودی عرب کو اس کی خانہ جنگی کی شکار ہمسایہ عرب ریاست یمن سے حوثی باغیوں کے مسلسل ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔

سعودی دارالحکومت ریاض سے کچھ دور پرنس سلطان ایئر بیس سے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم اور پیٹریاٹ بیٹریوں کی منتقلی ان دنوں میں عمل میں آئی، جب خلیج کے خطے میں واشنگٹن کے اتحادی دیکھ رہے تھے کہ افغانستان میں بیس سالہ تعیناتی کے بعد امریکی فوجی دستے کتنے بے ہنگم انداز میں ہندو کش کی اس ریاست سے رخصت ہو رہے تھے۔

سعودی دارالحکومت ریاض سے تقریباﹰ 115 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پرنس سلطان ائر بیس پر 2019ء میں اس وقت سے ہزاروں امریکی فوجی بھی تعینات رہے ہیں ، جب یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی اہم ترین تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔

پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور ایران خطے کے دو بڑے حریف ممالک ہیں اور خلیجی ریاستوں میں ہزار ہا امریکی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ علاقے میں ایران کی عسکری اہمیت کے باعث طاقت کے توازن قائم رکھنا بھی ہے۔

دوسری طرف کئی خلیجی عرب ریاستوں کو مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا سامنا بھی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ علاقے میں مستقبل میں کسی ممکنہ تصادم کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔امریکی فوج یہ سمجھتی ہے کہ ایشیا میں بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر وہاں امریکی میزائل نظاموں کا ہونا ضروری ہے۔ مگر خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو بے یقینی کا سامنا اس پہلو سے ہے کہ عسکری حوالے سے اس خطے کے لیے واشنگٹن کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں