منجمد دنیا اور متحرک بلوچستان

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ
اس وقت دنیا تاریخی لاک ڈاؤن سے گزر رہی ہے، ہر سمت ہر طرف انسانی چہل پہل پر اس لیے پابندی عائد ہے کہ کرونا وائرس کی منتقلی روک دی جائے، ہزاروں تبصروں کے بعد بھی یہ وائرس ابھی تک قابل علاج نہیں،خیر علاج تبصروں سے نہیں تحقیق سے ہوگا مگر خوامخواہ تبصرے تو ضروری ہیں کیونکہ یہ تیسری جنگ عظیم بھی تو ہو سکتی ہے؟
اس منجمد دنیا کی تبصراتی افرا تفری میں بلوچستان کس حالت میں ہے؟ کیا یہ بھی عالمی ادارہ صحت کے احکامات کے مطابق عمل پیرا ہے؟ کیا یہ بھی تحقیقی و تبصراتی سرگرمیوں میں متحرک اور کرونا وائرس کی ترسیل میں منجمدہے؟ ایک جائزہ بلوچستان کی کرونا سے پہلے اور موجودہ صورت حال پر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ یہ خطہ کس صورت حال سے دو چار ہے؟
ایک بوسیدہ حالت میں بلوچستان میں تمام انتظامی امور محض برائے نام وجود رکھتے ہے“نہ یہ ادارے کار آمد ہیں اور نہ ہی اپنی خلا چھوڑ رہے ہیں“ طبقاتی نظام، قدامت پرستانہ مذہبی ذہنیت، قبائلی فرسودہ خیالات،حقوقکی کھینچا تانی، اور مفادپرستانہ بیرونی قوتوں نے اس صوبے کے ہر نظام کو دگرگوں کر دیا ہے معاشرے کا ہر فرد بیمار ہے کسی کو کرپٹ ہونے کی بیماری لاحق ہے تو کسی کو خود پرستی کا مرض ہے، غریب بھوک افلاس ذلت اور جفا کشی نامی بیماریوں میں مبتلا ہے تو امیر ہرس و لالچ اور آگے بڑھنے کے ہوس میں بستر مرگ پہ پڑے ہوئے ہیں ان بیماریوں کی آڑ میں جو طبی بیماریاں ہیں وہ تو شمار ہی نہیں ہوتی ہیں، اورایسی سہولیات موجود نہیں کہ ان کی روک تھام کی جا سکیں تو شرح معلوم کرکے کیا فائدہ۔ اور اگر کوئی اس نظام کو غلطی سے کھنگالنے کی کوشش کرے اسے باقی دنیا سے موازنہ کرکے اسکے بوسیدہ ہونے کی شواہد کی نشاندہی کرے تو جواب ملتا ہے“یہ بلوچستان ہے”
ہاں یہ بلوچستان ہے، جہاں قریباً 50سال قبل کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سہولیاتِ صحت مہیا کیے جاتے ہیں، سالانہ بمشکل بلوچستان سے 200 ڈاکٹر فارغ ہوتے ہیں جنہیں باقی صوبوں سے موازانہ کرکے جب ہم نے بلوچستان کے میڈیکل کوٹے کو دْگنا کرنے کی بات کی تو کہا گیا“یہ بلوچستان ہے”ان 200 ڈاکٹروں کو روزانہ کتنے خود ساختہ مسائل کی آڑ میں سڑکوں پہ لایا جاتا ہے اور جب ان مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں ”یہ بلوچستان ہے”یہ 200 ڈاکٹر جب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پاس ہو جاتے ہیں تو ہاؤس جاب کے مر حلے میں انتہائی قلیل وظیفہ وصول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور جب درخواست کرتے ہیں کہ انہیں بھی باقی صوبوں کے طلباء کے برابر حقوق دیا جائے تو سننے کو ملتا ہے کہ”یہ بلوچستان ہے”اسی طرح کمیشن کے آسامیوں میں بھی لمبی انتظار کی مدت ہو یا محدود آسامیاں ہو یا پھر سالوں بھر تنخواہ کا انتظار جواب انتہائی سادہ ہے”یہ بلوچستان ہے”
دنیا جن حفاظتی اقدامات کے ذریعے کرونا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلوچستان عین انہی کے مخالف سمت میں گامزن ہے کیونکہ“یہ بلوچستان ہے”جس وقت دنیا کے دیگر ممالک نے ایک دوسرے سے رابطے منقطع کر دیئے کہ کرونا وائرس کا داخلہ ممنوع ہو اس وقت بلوچستان ایران سے منسلک ہونے کے باعث معمولات کو جاری رکھا رہا حتیٰ کہ بارڈر اْس روز تک بھی زائرین کے لیے کھلا رہا جس دن ایران کے محض قم شہر میں 94 لاشوں کو ایک قطار میں رکھا گیا تھا، یہ وہی شہر تھا جہاں سے زائرین کو لوٹنا تھا، پھر ایک دو روز کے بعد جب بارڈر بند کیا گیا تو معلوم ہوا آدھے سے زائد زائرین تو صوبے میں داخل ہو چکے ہیں، اب حکومتی نمائندے حرکت میں آگئے۔ انہوں نے دو ایسے اقدام اْٹھائے جو بظاہر کرونا کو
روکنے کے لیے کئے گئے تھے مگر یہی اسے بیشتر پھیلانے کی وجہ بنے۔
ان میں سے ایک عمل یہ رہا کہ ایران سے لوٹ آنے والے زائرین کو ایک چھت کے نیچے قرنطینہ میں بند کر دیا گیا بلکل ویسے جیسے مرغیوں کو ایک ڈبے میں رکھا جاتا ہے اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر ایران سے ایک مریض بھی لوٹ رہا تھا تو یہاں تمام افراد کو ایک چھت کے نیچے زمہ داری سے وائرس منتقل کرتا گیا، بلکل اسی طرح جیسے آٹے میں تھوڑا خمیر ڈال کر چھوڑ دیا جائے جو تھوڑی ہی دیر میں پورے آٹے کو خمیر زدہ کردے، صوبے میں لانے سے پہلے ایران سے لوٹنے والے تمام افراد کو کرونا میں مبتلا ہونے کے لیے روکے رکھا گیا۔ اسکے بعد دوسرا کارنامہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو بارڈر بند ہونے سے پہلے ہی شہر میں داخل ہو چکے تھے انکا پتا چلتے ہی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا عملہ فوراً انہیں پکڑ نے کے لیے ٹیم روانہ کر دیتا ہے یہ ٹیم ان افراد کو پکڑ کر لاکر ٹیسٹ کراتے ہیں روزانہ وہی گاڑی،وہی عملہ جنہوں نے اس عمل کے ذریعے کرونا وائرس کو مزید پھیلنے میں مدد دی۔اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہاں کرونا وائرس کو قصداً پھیلایا گیا ہے، بلکہ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ“یہ بلوچستان ہے”کے نام پر ہم کسطرح محرومیوں کا شکار بنے رہے ہیں جس کے اسباب آج ہمارے سامنے ہیں کہ پورے صوبہ میں پروفیشنل افراد کے نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے حالات سے لڑنے کے لیے لوگ کس قدر انتشار کے شکار ہیں۔
بلوچستان میں کرونا وائرس کے اعداد و شمار اب تک سب سے کم ہیں اسکی اہم وجہ یہ ہے کہ ٹیسٹنگ کی سہولت صرف کوئٹہ تک محدود ہے، اس لئے اگر باقی علاقوں میں کسی کو مرض لاحق ہونے کا شبہ ہو بھی تو انہیں کوئٹہ تک آنے کے لیے پہلے خود کو ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے ہاتھوں گرفتار کرانا ہوگا تبھی وہ ٹیسٹنگ کی سہولت حاصل کر پائے گا دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک کرونا وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح مختلف ممالک میں مختلف دیکھی گئی ہے، جسکے لیے کئی تھیوریز پیش کی گئی ہیں مگر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ کرونا ہر جگہ موت کا پیغام نہیں کچھ جگہوں پہ یہ معمولی زکام سے لیکر قابل علاج نمونیہ کی صورت میں ہے، اور بلوچستان انہی علاقوں میں شمار ہے۔
کرونا وائرس کے مدنظر دنیا میں کئی لوگوں نے اپنے کئی قیدیوں کو رہا کردیا ہے، جاپان جیسے ملک میں جامعہ کے کانووکیشن میں طلباء کی جگہ روبوٹس اسناد لیتے ہوئے نظر آئے،تعلیم سے لیکر سہولیات صحت آن لائن میسر کی جانے لگی، مگر بلوچستان کی مائیں اپنے فرزندوں کا انتظار کررہی ہیں۔ آج بھی کئی اضلاع میں انٹرنیٹ بلیک آوٹ ہے کئی طلباء نیٹ تک پہنچ نہیں رکھ رہے ہیں مگر بجائے اسکے کہ نیٹ بحال کی جائے اسی غیر مساوی حالت میں آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جا رہا ہے یہ طلباء جو اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاینگے کیا انٹرنیٹ بلیک آوٹ کے لیے ایسے جواز دیا جا سکتا ہے جو انکے نقصان کا ازالہ کر سکے، ایسی کوئی وجہ بتائی جائے کہ انٹرنیٹ بلیک آوٹ بھی ضروری ہے اور کلاسز بھی؟ کیوں منصفانہ نظام کے لیے واپس طلباء کو احتجاج کی جانب گھسیٹا جا رہا ہے؟
دنیا منجمند ہے، ایسے تمام عوامل کو اپنا یا گیا ہے جو وبا کو محدود کر رہے ہیں مگر بلوچستان اب بھی متحرک ہے، دنیا کے مخالف سمت میں۔۔۔۔ہم متحرک ہیں، طلباء کا انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے احتجاج ہو، ڈاکٹروں کا حفاظتی اقدامات کے سڑکوں پر ڈنڈے کھانا ہو، یا مریضوں کو ایک چھت کے نیچے قرنطینہ میں بند رکھنا ہو، بلوچستان متحرک ہے”کیونکہ یہ بلوچستان ہے“
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں