باپ کے نافرمان بچے

بایزید خان خروٹی
ہر عام و خاص بلوچستانی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ بلوچستان میں اگر کوئی نظریاتی جماعت ہے اور نظریات کے حامل لوگ کسی سیاسی شکل موجود ہیں تو بلوچستان عوامی پارٹی ہے جہاں اس قدر نظریاتی لوگ ہیں کہ جو اپنا سر تو کٹا سکتے ہیں لیکن نظریات پر سمجھوتے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔کیونکہ اسی نظریات کے تحت سب نظریاتی لوگ راتوں رات دور دراز علاقوں سے ایک نظریہ پر اکھٹے ہوئے تھے اب یہ نظریہ چھوڑنا ان کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان نظریاتی لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بڑے کے انتہاء فرمانبردار ہیں باجود اس کے کہ بڑا بھائی سخت مزاج ہیاور گھر توکجا بلکہ صوبے کی مافیاز کی سابقہ حکومتوں سے اس قدر نفرت ہے کہ اپنے گھر موجود چھوٹے بھائی بھی اس قدر شفاف کردار کے مالک ہیں کوئی بھی سابق مافیاز کی حکومت کا حصہ بنا تو درکنار بلکہ ان مافیاز کو جانتا تک بھی نہیں ہے اور یوں نظریاتی بھائی ایسے شیر و شکر ہو کر نئے گھر میں 2 سال ایسی زندگی گزار رہے ہیں جہاں مافیاز نام تک اکثر بھول گئے ہیں اس گھر کو خدا نے مختلف نعمتوں سے نوازا ہے اس مافیاز کے شدید خلاف کنبے میں دشت کے شریف النفس لالا رشید بلوچ بھی جان محمد دشتی کو ہرا کر اس کا حصہ ہے اور سب اس گھر میں خوشی ہنسی رہنے لگے ہیں۔گزشتہ تین دنوں سے اس ہنستے بستے گھر کو ترقی مخالف لوگوں کی نظر لگ گئی ہے۔ اور بڑے بھائی سے جس نے باپ کی غیر موجودگی میں گھر کا پورا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے سے اختلاف شروع ہوا اس میں باپ کے برسرروزگار نظریاتی بچوں نے باپ کے بڑے بیٹے سے اختلاف کرتے ہوئے پشتونوں کی نظر انداز کرنے کی وجہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم لی کہ نہ جھکیں گے نہ بکیں گے اور یوں چونکہ باپ کی غیر موجودگی میں 2 سال خوشحالی سے گھر اور محلے کے معاملات چلانے پر بڑے بھائی سے سارے محلے والے جیلس ہیں اور ان سے یہ ہنستا مسکراتا گھرنہیں دیکھا جاتا ہے اور وہ اس کو اجاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس گھر کی اچھی بات یہ ہے کہ مافیاز سے گھر کے کسی بندے کا تعلق نہیں ہے ہاں گھر میں کماؤ بچوں کی بات سب سنتے ہیں اور بڑا بھائی بھی انکی بات غور سے سنتا ہے اور دوسرے بھائیوں کی ناراضگی دور کرنے کیلئے ان کے کمرے تک جانے کے بجائے گھر کے اخراجات برداشت کرنے والے بھائی کے کمرے میں اکثر ناراض بھائی اکھٹے کر بات چیت کرلیتے ہیں اور پھر اس گھر کو بڑے بھائی کو گھر کی قیادت سے محروم کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے چھوٹے بھائی اپنی ناراضگی کی وجہ بڑے بھائی کا گھر کے زیادہ اختیارات رکھنا ہے کیونکہ بڑا بھائی پڑھا لکھا اور جہاں دیدہ بھی ہے اس وجہ سے گھر کی زیادہ ذمہ داریاں اپنے پاس رکھی ہیں لیکن اپنے کم پڑھے لکھے بھائیوں کو ان کے استعداد کار کی مطابق ذمہ داریاں دی ہیں کسی کو گھر کے بھینسوں کا چارہ لانے تو کوئی پانی کی ٹینکی کا ذمہ دار ہے ایک کو تو انڈسٹریل زون تک رسائی دی ہے جبکہ ایک بھائی کو تو محلہ داروں سے چھپ کر جنگلات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ بڑے بھائی سے چھوٹی بہن کی ناراضگی بات نہ سنے کی وجہ سے ہے۔ لیکن حاسدین کو ایک بار پھر نظریاتی بھائیوں نے بڑے بھائی کے ساتھ پرانی حالت پر زندگی گزارنے کا فیصلہ کرکے پریشان کردیا ہے حاسدین اس بات سے پریشان ہیں کہ قرآن مجید کی قسم جو اٹھائی گئی تھی انکا کفارہ کون کریگا بڑا بھائی یا چھوٹے بھائی؟
کیونکہ اس دوران ان کی ناراضگی کی خبر محلہ داروں تک بھی پہنچی جس میں چھوٹے بھائیوں نے بڑے بھائی پر کچھ اس قسم کے الزامات لگائے تھے کہ فنڈز اور پوسٹوں کی تقسیم کا فارمولہ آبادی کے لحاظ سے مانگتے ہیں ڈویژنز کے حساب پر تقسیم کے فارمولے کو مسترد کرتے ہیں
جام کمال اپنے ضلع میں اربوں روپے ظہور بلیدی اپنے ضلع میں اربوں روپے اور عارف محمد حسنی اپنے ضلع میں اربوں روپے کی ترقیاتی اسکیمات کے ناموں پر لے کر گئے ہیں جبکہ پشتون ضلع شیرانی کو صرف 17کروڑ روپے دیے گئے ہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟کہ پورے صوبے میں صرف یہی نمائندے جو موجودہ کورونا وائرس جیسے وبا میں اپنے حلقے کے عوام کے درمیان میں دیکھے جا رہے ہیں لیکن وزیراعلی نے کورونا وائرس پر حکومتی پالیسی سازی میں ان سب کو نظر انداز کیا۔ بی اے پی کا قیام کا مقصد صوبہ کے نمایاں اورسیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا تاکہ صوبے کی بہتر خدمت ہوسکے اورتعصب کی فضا کو ختم کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے پشتون اضلاع اور حلقوں سے منتخب ارکان کو ابتدا ئی سے متناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔ اہم وزارتیں وزیراعلی کے پاس ہیں۔اور ہمارے مینڈیٹ کو نظر انداز کیا گیا۔پشتون بیلٹ میں واحد لورالائی یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو نظر انداز کر نے پر سب ممبران نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں وفاقی پی ایس ڈی پی کے ترقیاتی منصوبوں میں ہمارے حلقوں کو ترجیح نہیں دی گئی۔ نہ صرف وفاقی معاملات بلکہ صوبائی ترقیاتی منصوبوں میں بھی ہمارے اضلاع اور حلقوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ صوبائی PSDPs کی بھی حالت یہی ہے۔بعض اہم پالیسی سازی اور حکومتی امور میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ایسے حالات میں وزارتوں میں رہنے کا جواز باقی نہیں رہتا لہذا مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں وزارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔باپ کو محلے داروں کے سامنے ان تمام نکات کے جوابات دینے چاہئے کیونکہ ہر بلوچستانی یہی چاہتا ہے کہ باپ کانظریاتی گھر باپ کے بغیر آباد رکھنے میں ہی ان کا مفاد ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں