علم نہیں ظلم!!!!

تحریر: راحت ملک
موجودہ حکومت نے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے عمل کو شفاف اور معیاری بنانے کیلئے پاکستان میڈیکل کونسل کو کالجز میں داخلے کیلئے خواہش مند طلباء کے ٹیسٹ لینے کااختیار دیا قبل ازیں یہ فریضہ این ٹی ایس نامی کمپنی انجام دیتی تھی جو بذات خود تعلیمی نظام پر سرکاری خط ٍ تنسیخ کا عمل تھا- پی ایم سی نے داخلے کے خواہش مند طلباء سے پانچ ہزار روپے سے زائد امتحان میں شرکت کیلئے فیس کے طور پر وصول کئے، کرونا وباء نے تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل پیدا کیا ہوا ھے پھر بھی ہزاروں طلباء وطالبات نے بلوچستان سے پی ایم سی کے ٹیسٹ میں حصہ لیا فی طالب علم جو مجموعی رقم پی ایم سی کو حاصل ہوئی وہ امتحان کے انعقاد کیلئے اٹھنے والے اخراجات سے بہت زیادہ ہے پورے ملک میں ایک مقررہ وقت پر بذریعہ انٹرنیٹ ٹیسٹ منعقد کرانے کی بجائے اسے مختلف گرپوں (بلحاظ تعداد) تقسیم کیا گیا جن کے ٹیسٹ مختلف اوقات میں ہویے مذکورہ ٹیسٹ کیلئے طلباء کو ایک نصاب بھی مہیا کیا گیا تھا کہ وہ اس کے مطالعہ سے ٹیسٹ کے لیے تیاری کرلیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے سینکڑوں طلباء و طالبات کوئٹہ آ کر ٹیسٹ کی تیاری کیلئے مختلف اکیڈمیوں میں پڑھتے رہے لیکن جب ٹیسٹ شروع ہوا تو طلباء کیلئے حیران کن مرحلہ سامبے آیا کہ جواب طلب سوالات اس نصاب سے ماورا تھے جو انہیں تیاری کیلئے پی ایم سی نے مہیا کیا تھا یعنی سوالات نصاب سے انتہائی مختلف تھے، صورتحال طلباء کیلئے انتہائی تشویشناک تھی صاف نظر آ رہا تھا کہ بلوچستان کے طلباء کی اکثیرت میڈیکل کالجز میں داخلوں سے محروم رہ جائے گی چنانچہ پہلے ٹیسٹ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان سے طلبائکے تحفظات کی تائید ہوئی۔صرف پانچ فیصد طلباء ٹیست میں کامیاب ہوئے ناکام رہ جانے والے طلباء کی اکثریت نصاب کے مطابق مکمل ذہنی تیاری رکھتی اور کامیابی کی بھرپور امید رکھتی تھی لیکن اس ٹیسٹ سسٹم نے عجب نتائج مرتب کئے، طلبہ کے بقول کامیاب ہونے والے طلباء میں زیادہ تر وہ شامل تھے جن کی تیاری اعلیٰ معیار سے عاری تھی۔
(شاید اگلے انتخابات کیلئے لائے جانے والے ای وی ایم میں بھی ایسی ہی صفات پوشیدہ ہوں؟) بہر حال پورے صوبے کے طلباء میں تشویش کی لہر دوڑ گئی گمان کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کے خوشگوار ماحول میں ٹھنڈے کمروں میں تشریف فرما اعلیٰ حکام بلوچستان کے بچوں اور بچیوں کو طب کے شعبے میں داخل ہونے اور صوبے میں صحت کے شعبہ میں خدمات انجام دینے سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کئی روز کا پرامن احتجاج بے نتیجہ رہا اور کسی جانب سے شنوائی کو خوشکن امید افزاء اور روشن ضمیر آواز سنائی نہ دی تو کئی طلباء اس گہرے سکوت بے پرواہی دیکھ کر شدید ذہنی کرب و مایوسی میں ڈوب گئے ان میں ایسے بھی تھے جو کئی ماہ سے والدین کی جمع پونجی خرچ کرکے کوئٹہ میں پرائیویٹ ہاسٹلز میں مقیم تھے، ایک سہانے مستقبل کا خواب لیے ایک باعزت پیشے سے وابستہ ہو کر اپنی اور اپنے خاندان کی ترقی و خوشحالی کے سپنے سجائے پوری تندہی و لگن سے تیاری میں مصروف رہے مگر جب امید افزاء نتائج سامنے نہ آئے اور اس بات کا یقین ہونے لگا کہ کوئی حکومت محکمہ ادارہ یا عدلیہ ان کے مستقبل کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ روکنے کیلئے اقدام پر تیار نہیں تو بہت سے طلباء نے تعلیم حاصل کرنے سے توبہ کر لی وہ ڈاکٹر بننے کے بکھرے خوابوں کی کرچیاں دلوں میں چھپائے ناامیدی و مایوسی کے گہرے تاریک سایوں سے لپٹ کر اپنے اپنے دیہات کی طرف لوٹ گئے کہ وہ علم حاصل کرنے کی ناکارہ کوشش کرنے کی بجائے اگر اپنے والدین کے ساتھ کھیتی باڑی میں شامل ہوں جہاں سہانے اور خوشگوار مستقبل کی امید تو نہیں لیکن سفال ھند میں سہی آب و دانہ ملنے کا امکان تو موجود ہے مایوس اور مستقبل سے ناامید یہ نوجوان اپنے ٹوٹے خوابوں کا کتھارسس کیسے کر پائیں گے؟ یہ تشویشناک پہلو ہے جس پر ہر پہلو سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے مذکورہ طلبہ اگر کسی منفی رویے یا احساس کمتری کے شکار نہ بھی ہوئے تو کم از کم وہ ترقی و خوشحالی اور آسودہ زندگی سے مکمل طور پر محروم ضرور ہو جائیں گے ان مایوس اور ناامید
” امیدواروں ” میں کچھ پالیسی کے بہیمانہ پن سے اظہار نفرت کیلئے منشیات میں پناہ لیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ ناانصافی، علم سے جبراً بلکہ ارادی طور پر محروم رکھے جانے ادراک کی بنیاد پر غم وغصے میں نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے پر تشدد ردعمل ظاہر کرنے پر اتر جائیں!!!۔
اس پہلو کی شدت کا تخیمنہ اندرون بلوچستان بالخصوص بلوچ علاقوں. مکران خاران آواران جھالاوان میں موجود مسلح جدوجہد کے نیٹ ورک کی موجودگی کے تناظر میں اخذ کرنا چاہئے مذکورہ نیٹ ورک کے لیے برگشتہ و مایوس ان نوجوانوں کو ساتھ ملانا سب سے سہل ہو گا وہ انہیں مالی مدد بھی دیں سکتے ہیں اور مہم جویانہ خوشکن نعروں کا گرویدہ کرکے قومی ہیرو بننے کی ترغیب دے سکتے ہیں درپیش صورتحال میں ایسا ہونا بعد از قیاس نہیں اور شاید دستیاب حالات میں باجواز بھی سمجھا جائے!!!۔
داخلوں کے لیے ناقص غیر معیاری اور اقرباء پروری پر مبنی طریقہ کار کے خلاف طلباء ایکشن کمیٹی کے پر امن احتجاجی دھرنے اور جلوس پر پولیس نے وحشیانہ طور پر میں اپنی بھیانک طاقت کا روائتی مظاہرہ کیا نہتے طلباء و طالبات پر لاٹھیاں برسائیں گئیں چیئرمین زبیر بلوچ اور ان کے دیگر متعدد ساتھی زخمی ہوئے پولیس نے
نوآبادیاتی عہد کی یاد تازہ کرتے ہوئے پٹائی کے بعد بڑی تعداد میں طلباء کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا ان طلباء کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا گیا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان طلباء کے طعام کیلئے پولیس تھانے میں "کسی نے بھی سجی اور مرغن کھانے” نہیں بھجوائے۔ تاکہ طلبہ اور ارکان ٍ پارلیمان کے امتیاز برقرار رہے
احتجاج میں مختلف طلباء تنظیموں کے فعال ارکان شریک تھے جن میں شہید ھانی یا خانی بلوچ کا نام تاریخ کے صفحات پر انمٹ ہو گیا ہے گودی ھانی بلوچ اس احتجاجی تحریک میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئی ہیں پولیس کے تشدد اور بے تحاشہ آنسو گیس کے استعمال نیان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے وہ شاید زخمی بھی ہوئیں، پہلے سے بیماری میں مبتلا نحیف و نزار بیٹی آنسو گیس اور تشدد کے بدترین اثرات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی تو ہسپتال میں داخل ہوئیں مگر دو روز موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اس استحصال زدہ جہاں فانی سے کوچ کر گئین اس انتہائی افسوسناک سانحے پر ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ شہید ہانی پولیس تشدد کی بجائے پہلے لاحق بیماری کی وجہ سے جاں بحق ہوئی ہیں اس موقف کو درست مان لیا جاے تو دو باتیں ایسی ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں یہ کہ ھانی شہید طلباء احتجاج کے اگلے مورچے میں بڑی جوانمردی سے موجود تھیں دوم یہ کہ وہ بیماری میں بھی مبتلا تھیں اور پولیس نے جس اندوہناک طریقے سے طلباء پر آنسو گیس کی بارش کی ہے ھانی کا ناتواں جسم اس بربریت سے بری طرح متاثر تو ہوا تھا اور اس کی ناگہانی موت اسی ریاستی تشدد اور ظلم و ستم کا شاخسانہ ہے، جام حکومت اس سانحے کو طبی موت قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ تاریخ کے حقائق اور سوالات کو بدل نہیں پاے گی گو کہ اس شہادت کے بعد تمام گرفتار طلباء کو رہا کیا جا چکا ہے لیکن پی ایم سی کے طریقہ امتحان میں تاحال تبدیلی سامنے نہیں آئی ہو سکتا ہے کہ جام حکومت کسی اور طالب علم کی ہانی بلوچ کے انداز میں شہادت کی متمنی ہو اگر ایسی نہیں تو پھر فوری طور پر بلوچستان ہائی کورٹ کے دو ججز اور تین سینئر وکلاء پر مشتمل انکوائری کمیشن قائم کیا جانا چاھیے جو ہانی بلوچ کی شہادت اور مستقبل میں ڈاکٹر بن کر باعزت پیشہ اختیار کرنے والے طلباء و طالبات کے ٹوٹتے خوابوں کی وجوہات سامنے لائے بلکہ ان کرچی کرچی خوابوں از سر نو جوڑ کر صوبے کے بچوں بچیوں کو ناامیدی مایوسی، بیگانگی، مخمصے نفرت اور منشیات و تشدد پسندی کا شکار ہونے سے بچائے۔ میڈیکل۔ شعبہ صحت اور تعلیم صوبائی امور ہیں مرکزی حکومت کی ان میں مداخلت غیر آئینی ہے، داخلے کے معاملات کو مرکز میں مرتکز کرنا بذات خود تشویشناک عمل ہے۔
ہانی بلوچ آپ سدا زندہ رہو گی بلوچستان کی امنگوں میں اور ہمارے دلوں میں —–!!!