پانامہ لیکس کے بعدپینڈورا بکس لیکس
پاکستان میں لوگوں نے پہلی مرتبہ 2014میں پانامہ لیکس کا نام سنا،اس فہرست میں پاکستان کے معروف سیاستدان، بیوروکریٹ،جنرلز، ایئر مارشل،بزنس مین اور دیگر شامل تھے۔7سال بعد پینڈورا بکس لیکس کے نام سے تیسری فہرست منظر عام پر لائی گئی ہے۔دوسری فہرست پیراڈائز لیکس2017میں سامنے ا ٓئی تھی۔تینوں فہرستوں کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ متعلقہ افراد سے رابطہ کرکے انہیں پہلے ہی بتادیا گیا ہے کہ دستاویزات کے مطابق ان کے نام پر یہ سب کچھ (جائیداد اور بینک اکاؤنٹس)کی شکل میں موجود ہے۔گویا پینڈورا بکس میں درج نام اور پتے پر رہائش پذیر افراد میں سے کسی ایک نہیں بھی ان معلومات کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر چیلنج نہیں کیا۔یہ کام بڑی محنت اور مہارت سے کیاگیا ہے۔ 600سے زائد صحافی اس کام میں مصروف رہے اور انہوں ایک کروڑ 20لاکھ فائلوں کی چھان بین کی،700پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک گزشتہ دونوں لیکس میں شامل پاکستانی ملزمان نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ ا ن میں سے بعض سڑکوں اور چوراہوں پر اپنے ورکرز کے سامنے دن رات کہتے رہے ہیں اورآج بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف حکومت ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکی۔یہ الگ بات ہے دعویٰ کرنے والے نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کے اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ ان کے خاندان کے بیشیتر افراد پاکستان سے بھاگ کر لندن میں کیو ں مقیم ہیں؟نہمہی پریس کانفرنسز میں کوئیان سے یہ پوچھتا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں انہیں ”اشتہاری اور مفرور“قرار دے کر ان کی جائیدادیں کیوں نیلام کر ہی ہیں؟ان کے بینک اکاؤنٹس کس بناء پر سرکار نے ضبط کر رکھے ہیں؟ایک کے والد اور دوسرے کے تایا اور دونوں کے بھائی پاکستان کی عدالتوں میں پیش ہوکر اپنی بیگناہی کیوں ثابت نہیں کرتے؟ ملزمان عین اسی روزاپنی پسند کے اسپتالوں بیمار یا شدید زخمی ہوکر کیوں داخل ہوجاتے ہیں؟ حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں بڑے خاندانوں کا رویہ ایک جیسا ہے۔عدالتوں کا سامنا کرنے سے مسلسل گریز کی کیا وجہ ہے؟ تمام ملزمان اس بارے خاموش ہیں۔حتیٰ کہ دوسرے درجے کی قیادت بھی اپنے بڑوں کے نقشِ قدم چلتے ہوئے اپنی پارسائی کی ایک ہی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکی،یہ صرف نیب /نیازی گٹھ جوڑ ہے کہ انتقام لیا جا رہا ہے۔اس دوران جسٹس قیوم ملک اور جسٹس ارشد ملک (مرحوم)اپنی مدت ملازمت پوری ہونے یا برطرفی کے بعد قضاءِ الٰہی سے اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اس لئے ان سے جواب طلبی ممکن یا مناسب نہیں سمجھی جا رہی۔بہر حال یہ دیکھ کر عوام کو امید ہو رہی ہے کہ پانامہ لیکس والے متعددملزمان کے خلاف جو مقدمات زیر سماعت ہیں اب میڈیا اطلاعات کے مطابقان کی کارروائی پہلے کی نسبت تیز ہو گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی پرامید ہیں کہ اگر ان مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیادپر کی جائے تو آئندہ 6ماہ میں بعض بڑے ملزمان کو 25سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ ہونا تو یہی چاہیئے ملزمان کے مقدمات کی سماعت جلدمکمل ہو۔اگرمقدمات معقول شواہد کے بغیر بنائے گئے ہیں توحکومت عوام کے سامنے شرمندہ ہوگی،ورنہ مجرموں کوان کے کئے گئے جرائم کی سزا ملے تاکہ آئندہ کوئی قومی خزانے کو ناجائز طریقے سے اپنی جیبوں اور بینکوں میں نہ ڈال سکے۔ چشم پوشی کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک قرض ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا، دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے،جیسا کہ 2018 میں دنیا نے دیکھا۔برادر اسلامی ملک اور ہمسایہ ملک چین مدد نہ کرتے تو پاکستان کودیوالیہ ڈیکلیئر کر دیا جاتا۔لیکنما؛لیاتی پریشانی کے ساتھ اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ملائیشیاء میں بلائی گئی کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شریک نہیں ہو سکے۔ عدم شرکت کی وجہ یہی ”امداد“بنی تھی۔زندہ اور خوددار قومیں اپنی رسوائی کو بھی یاد رکھتی ہیں۔تاکہ قرض کی آڑ میں غلام سمجھنے والے حکمرانوں کو مناسب وقت پر نرم یا مناسب انداز میں جواب دیا جا سکے کہ ہم نے قرض لیا تھا، واپس کردیا، اور ابآپ بتائیں اس بے عزتی کا جواب کون دے گا؟ کیسے دے گا؟یاد رہے جس برتن میں چھید ہوں اس میں رکھی گئی شے محفوظ نہیں ہوتی۔وہ سارے چھیدپانامہ لیکس، پراڈائز لیکس اور پینڈورابکس لیکس میں درج ہیں، انہیں بندکیا جائے،تاکہ خزانہ خالی ہونا رک سکے۔ممکن ہے بعض ساہ لوح پاکستانی یہ سوچ رہے ہوں کہ امیر ملکوں کو کیا پریشانی تھی کہ ا نہوں نے اپنے ملک میں (غیرقانونی) دولت جمع کرنے والے افراد کی فہرست (تین اقساط میں)کیوں جاری کی؟انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ کام یہ بلاوجہ نہیں کیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر قانونی دولت رکھنے والے افراد کی ذہنیت مجرمانہ ہے، وہ جرم کئے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔منشیات فروش بیرونِ ملک بھی منشیات ماضی میں فروخت کرتے رہے ہیں /حال میں فروخت کر ر ہے ہیں اور مستقبل میں فروخت کریں گے۔انہیں دوسرا کوئی کام آتا ہی نہیں۔اپنی دو نمبر دولت کے بل پر اپنے امیدوار پارلیمنٹ میں بھیجتے اور اپنی پسند کی قانون سازی کراتے ہیں، اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں، مافیاز بن جاتے ہیں۔ان ملکوں میں لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے۔ امریکی پارلیمنٹ پر حملہ اسی ذہنیت نے کرایا تھا۔امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے پیچھے بھی یہی مجرمانہ ذہنیت کارفرما تھی۔دوسرے ملکوں میں سائنس دانوں اورمحب وطن حکمرانوں کے قتل میں بھی یہی دونمبری دولتمندملوث ہیں۔کبھی غیر جانب دارانہ تحقیق ہوئی تو یہی ذہنیت قاتل ثابت ہو گی۔ضرورت اس امر کی ہے ان قومی مجرموں کو عدالتوں میں شواہد پیش کرکے فوری سزا دلوانے کی کوشش کی جائے۔ورنہ یہ بھی گلی کوچوں میں کہتے رہیں گے:”ہمارے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی“۔انہیں ملک سے بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے۔ان سے لوٹی ہوئی ایک ایک پائی واپس لی جائے۔ کسی کو مقدس گائے نہ سمجھا جائے۔ عدالتی عمل کو تیز کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔ عدالتوں کو یاد دلایا جائے ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان کانام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔چوری اور دیگر جرائم یہ مٹھی بھر لوگ کرتے ہیں، بدنام22کروڑ عوام کا پاکستان ہوتاہے۔اگرغیر قانونی دولت رکھنے والوں کام اور تفصیلات ان ممالک نے خود ہی ظاہر کر دی ہیں، توکیس آئی جے آئی نے تیار کر دیا ہے، مجرموں نے چیلنج نہیں کیا، چیلنج نہ کرنا اعتراف جرم سمجھا جائے، پہلی یادوسری پیشی پر سزا سنا دی جائے۔ انہیں جیلوں میں پہنچایا جائے۔


