راسکوہ کی موت۔ڈاکٹرصاحب کی رحلت

تحریر: انورساجدی
ارادہ تھا کہ اس واقعہ کے بارے میں کالم لکھوں جو اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کی غلام گردشوں میں پیش آیا ”گورمے“ والوں کے ٹی وی چینل نے ایک خبر بتائی کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ ہاؤس جانا تھا لیکن وہ اچانک رک گئے اور سیکورٹی اہل کاروں سے پوچھا کہ
میں کہاں ہوں
اور آپ لوگ مجھے
کہاں لیکر جارہے ہیں
غالباً وزیراعظم ذہنی مصروفیت سے بھول گئے تھے کہ وہ پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوگئے ہیں حالانکہ یہ عمارت انکے لئے کافی شناسا ہے وہ سینکڑوں دفعہ یہاں پر آچکے ہیں شائد کسی پریشانی کی وجہ سے وہ نہ صرف پارلیمنٹ بلڈنگ کی راہ داریوں کو بھول گئے بلکہ یہ بھی انکی یادداشت سے چلی گئی کہ وہ کہاں پرہیں لگتا ہے کہ جوں جوں ملک کا معاشی سیاسی وسیکورٹی بحران بڑھتا جائیگا لیڈر کی حیثیت سے جناب عمران خان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جائیگا خداخیر کرے۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خان ہفتہ کے روزانتقال کرگئے اللہ انکی مغفرت کرے وہ کافی نامور تھے دنیابھر میں مشہورتھے پاکستان کے عوام کی اکثریت انہیں ہیرو کادرجہ دیتی تھی
کراچی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے میڈیا نے انہیں محسن پاکستان کا خطاب بھی دیا تھا لیکن ملک کے اندر ان کا کرداراور کارنامے کسی حد تک متنازعہ بھی تھے جو انکے ناقدین ہیں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے انکے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پرویز ہود بائی انکے بدترین ناقدین میں سے تھے جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے روشن خیال دانشور اور صحافی منوبھائی بھی ایٹمی اسلحہ بنانے کی وجہ سے ان کی مخالفت کیاکرتے تھے۔
منوبھائی نے اپنے مشہور کالم میں لکھا تھا کہ اگر ڈاکٹرقدیر خان ہلاکت خیز اور انسان کش ہتھیار بنانے کی بجائے ایسے بیج ایجاد کرتے جو زیادہ پیداوار دیتے تو کروڑوں لوگ بھوک اور فاقوں سے بچ سکتے تھے
ڈاکٹرقدیر خان کو تعصب اور یک طرفہ پاکستانی میڈیا ایٹمی پروگرام کا خالق بھی ثابت کرتا ہے حالانکہ ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو تھے اگروہ نہ ہوتے تو قدیر خان کہاں سے یہ پروگرام شروع کرسکتے تھے کیونکہ دنیا میں ہزاروں فزکس کے ماہرین ہیں لیکن انہوں نے آج تک ایٹمی اسلحہ نہیں بنایا کیونکہ اس کے لئے ریاست کی سپورٹ اور بے پناہ ماضی وسائل درکار ہوتے ہیں بھٹو نے ڈاکٹرقدیر خان کو اس وقت پاکستان آنے پر آمادہ کیا جب وہ ہالینڈ کے سرکاری ایٹمی پروگرام سے وابستہ تھے ڈاکٹرکے اپنے بقول وہ ایک دن اپنی ڈچ بیوی کو بتائے بغیر چوری چھپے جہاز میں بیٹھ کر پاکستان آگئے بھٹو کو ایٹم بنانے کا خیال اس وقت آیا جب اندراگاندھی نے1974ء میں راجھستان میں پہلا ایٹمی دھماکہ کردیا اس دھماکہ سے بھٹو بہت جذباتی اور حواس باختہ ہوگئے حتیٰ کہ انہوں نے اعلان کردیا کہ
ہم گھاس کھائیں گے
لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے
یہ الگ بات کہ بھٹو کا فیصلہ درست تھا کہ غلط پاکستانی میڈیا بھٹو سے شدید نفرت اور تعصب کی وجہ سے ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کریڈٹ اسے نہ جائے خاص طور پر جب مقتدرہ نے بھٹو کو تختہ دار پرلٹکاکرراستے سے ہٹایا تو پوری کوشش کی گئی کہ ایٹمی پروگرام کا اصل کریڈیٹ عالی مرتبت جنرل ضیاؤ الحق کو دیا جائے کیونکہ بھٹو کو ملک دشمن اور سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار قراردیاگیا تھا اور کوئی بھی مثبت بات ان سے منسوب کرنا ملک دشمنی کے مترادف تھی اب آیئے اس طرف ایٹمی پروگرام کے حق میں کیا دلائل دیئے جاتے ہیں اور اس کی مخالفت میں کیاکہاجاتا ہے۔
حکمرانوں پنجاب اورکراچی کی مہاجر اشرافیہ کاخیال ہے کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کے بعد پاکستان ناقابل تسخیر ہوگیا ہے اور اذلی دشمن انڈیا کی جرأت نہیں کہ وہ میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھے چلو مان لیتے ہیں کہ ایسا ہے لیکن پاکستان کے سب سے پاورفل کمانڈر جنرل ضیاؤالحق کے دور میں انڈیا نے سیاچن گلشیئرپرقبضہ کرلیا ضیاؤالحق نے کونسا دہلی پر ایٹم بم گرادیا ایک اور گبرو کمانڈر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں انڈیا نے کارگل پرقبضہ کرلیا مشرف نے اس کا کیابگاڑ لیا بلکہ انڈیا نے کارگل پر1999ء میں قبضہ کیاتھا جبکہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے1998ء میں کئے تھے سیاچن پر قبضہ1983ء کاواقعہ ہے جب پاکستان ایٹم بم کا کولڈٹیسٹ کرچکا تھا لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایٹم بم روایتی دفاع میں کارآمد ہتھیار نہیں ہے۔
سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 6اگست 1945ء کوامریکہ نے جاپان پرپہلا ایٹم بم گرادیا جس سے جاپان مکمل طور پر تباہ ہوگیا لیکن تباہ شدہ جاپان بے پناہ محنت اور انسانی کاوشوں کے ذریعے 25سال بعد ایشیاء کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن گیا یہ درست ہے کہ ایٹم بم کے استعمال کے بعد امریکہ عالمی غنڈہ اوربھتہ خوربن گیا اور اس نے نصف دنیا کے وسائل ہڑپ کرکے اپنی خوشحالی کو بڑھاوا دیا لیکن آج76سال بعد امریکہ عملی طور پر دیوالیہ ہوگیا ہے اس کے ریزرو ختم ہوگئے ہیں امریکہ نے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی وہ ویٹ نام میں شکست کھاکر بھاگ گیا اور حال ہی میں افغانستان میں بدترین شکست کے بعد رات کی تاریکی میں فرارہوا۔
جاپان کی طرح جرمنی بھی دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے مکمل طور پر تاراج ہوگیا لیکن امن کا راستہ اختیار کرنے کے بعد وہ اس وقت یورپ کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور چوتھی بڑی معیشت ہے اس کی ٹیکنالوجی کاساری دنیا میں ڈنکا بج رہاہے۔
اتفاق سے چین کے سوا جن ممالک نے ایٹمی اسلحہ بنایا وہ سارے کے سارے معاشی طور پر کمزورپڑگئے۔
ہمارے لوگوں کو حکمرانوں نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے کیونکہ اگر یہ استعمال ہوگیا تو دشمن کے ساتھ آپ خود بھی نیست ونابود ہوجائیں گے اگرامریکہ کو ضرورت پڑے وہ اپنے براعظم میں کبھی یہ ہتھیار استعمال نہیں کرے گا معروف ماہر معیشت قیصر بنگالی کے مطابق ایٹمی پروگرام نے پاکستان کی معاشی ترقی روک دی ہے ان کا استعمال توکجاانہیں حفاظت میں رکھنا بذات خود ایک بڑامسئلہ ہے کیونکہ ان کی حفاظت کا خرچ بھی ایک بڑا بوجھ ہے۔
بنگلہ دیش 1971ء میں الگ ہوگیا اس کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ خطرناک ہتھیار لیکن معاشی دوڑ میں وہ پاکستان کو کہیں پیچھے چھوڑگیا ہے گزشتہ روز ہی ہر وزیرخزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ ایشیاء کی25معیشتوں میں بھی پاکستان کا شمار نہیں ہے اگرایٹمی ہتھیار معاشی خوشحالی کاضامن ہوتے تو پاکستان کا شمارایشیاء کی نمایاں معیشتوں میں ہوتا۔
اگرایٹمی پروگرام پرتنقید کی جائے تو یہ قابل گردن زدنی جرم قرارپاتا ہے لیکن حکمران عوام کبھی نہیں بتاتے کہ اتنی پسماندگی اوربدحالی کی وجوہات کیا ہیں؟کیونکہ وہ حقائق بتانے کی پوزیشن میں نہیں بلکہ وہ حقائق چھپارہے ہیں ریاست کی آبادی میں اضافہ کے ساتھ خوراک تعلیم،صحت اوردیگر ضروریات میں اضافہ ہورہا ہے لیکن پیداوار اور آمدنی جامدہیں بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اسٹیٹس کے حصہ دار ہیں وہ بھی اصل حقائق بتانے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں ڈر اور خوف لاحق ہے اس طرح سے وہ بھی حکمرانوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔
انہوں نے معیشت کے بارے میں ماہرین کی خدمات حاصل نہیں کی ہیں بلکہ ان کے پاس بھی بیان باز اور شعبدہ بازقسم کے لوگ ہیں اپوزیشن کوچاہئے کہ وہ عوام کو بتادے کہ اگریہی حالات رہے تو چندسالوں میں یہ ریاست شدید ناکامی سے دوچار ہوجائے گی جس کے بعد لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے سماج میں افراتفری اورانتشار بڑھے گا جو بالآخر خطرناک قسم کی خانہ جنگی پرمنتج ہوگا جو لوگ کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ خود کو اعلیٰ ترین محب وطن سمجھتے ہیں جبکہ صحیح بات بتانے والے انکے نزدیک ملک دشمن اور غدار ہیں بے شک ڈاکٹرقدیر خان کو لوگ ہیرو کا درجہ دیں لیکن پاکستان کو ایٹمی سائنس دانوں کی ضرورت نہیں ہے ایسے سائنس دانوں کی ضرورت ہے جو چاول،گندم،کپاس اور پھلوں کے ایسے بیج دریافت کرے جو زیادہ پیداوار کے حامل ہوں اس سلسلے میں اسرائیل سے سبق حاصل کیاجاسکتا ہے جو زرعی شعبہ میں نہ صرف انقلاب لایا ہے بلکہ خوراک کی بڑی مقدار برآمد بھی کررہاہے
پاکستان کے لوگوں کو نسیم حجازی کے ناولوں زید حامد اور اوریا مقبول کی تقاریر سناکر یاجعلی نصاب بناکر کہاں لے جایا جارہا ہے حکمران کیوں نہیں بتاتے کہ
ریاست اس وقت ایک دو راہے پر کھڑی ہے ایک طرف پسماندگی ناکامی بھوک اور افلاس ہے جبکہ دوسری طرف روشن مستقبل ہے ڈاکٹرقدیر خان نے اگرچہ یورنیئم افزودہ کیاتھا لیکن ایٹم بم انہوں نے نہیں بنائے اور نہ ہی 20مئی1998ء کے ایٹمی دھماکے ان کی نگرانی میں ہوئے البتہ راسکوہ میں ایٹمی دھماکوں کی سائٹ کا انتخاب انہوں نے بھٹو کی ہدایت پرکیاتھا۔
ڈاکٹرصاحب باقی لوگوں کیلئے ہیرو اور نجات دہندہ سہی لیکن انہوں نے بلوچستان کو مستقبل ایٹمی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا چاغی کاخوبصورت پہاڑی سلسلہ تاابد مرچکا ہے چاغی کے لوگ کینسر اور جلدی امراض کا شکار ہیں وہ دوا اور علاج کے بغیر ایڑیا رگڑنے پر مجبور ہیں کاش کہ دھماکوں سے پہلے یابعد میں انہیں کوئی اکسیر دوا دی جاتی
انڈیا نے تو پوکھران کے صحرا میں دھماکے کئے لیکن ڈاکٹرقدیر خان نے چاغی کے پہاڑ کو اس مقصد کیلئے چنا وہ چاہتے تو تھر کے ریگستان جہلم کے سالٹ ریج ہمالہ یا ہندوکش کے دامن پر کہیں کسی سائٹ کاانتخاب کرتے لیکن انہوں نے ایک لاوارث جگہ کا انتخاب کیا تاکہ ان کی نسلیں قسطوں میں موت سے ہمکنار ہوجائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں