گوادر پاکستان کی معیشت کی بحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،عبدالکریم نوشیروانی

کوئٹہ:بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئرنائب صدر اور سابق صوبائی وزیر میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہا ہے کہ گوادر نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی معیشت کی بحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دشمن کی نظریں گوادر پر مرکوز ہیں وہ پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا تربت مند سے لیکر گوادر تفتان تک کسٹم کی چیک پوسٹیں قائم کرکے اربوں روپے کاریونیو حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے لئے پلاننگ کی ضرورت ہے اخباری بیانات اور فوٹو سیشن مسائل کا حل نہیں اس ریونیو سے گوادر کے عوام کو بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے سی پیک کی کامیابی گوادر کی ترقی و خوشحالی سے منسلک ہے لہذا حکومت وقت اس طرف خصوصی توجہ دے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کرنے والے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہی سابق صوبائی وزیر میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہاکہ گوادر کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں 1958میں جنرل ایوب خان نے گوادر جوکہ مسقط کا حصہ تھا کو خرید کر پاکستان میں شامل کرایا ماضی میں گوادر کی سرزمین کو اربوں کھربوں روپے میں سابقہ حکومتوں نے فروخت کیا لیکن یہاں کی عوام کو اتنی قیمتی زمین کے بدلے کوئی ریسپانس نہیں ملا جو کہ ملنا چاہئے تھا سی پیک آیا، گوادر کی اہمیت اور بڑھ گئی لیکن اسکے باوجود یہاں کے غریب عوام اور مچھ سے بنیادی سہولیات زندگی سے محروم رہے تاہم اب انہوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی تو اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے مزید کہاکہ گوادر کے آدھے سے زائد غریب مچھیروں کا سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر ہے لیکن گوادر جیونی اورماڑہ اور ڈام میں سندھ کے ٹرالروں کی یلغار نے ان کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے حالانکہ ماضی میں حکومتوں نے ان ٹرالروں پر پابندی لگا دی تھی اب سندھ کے ٹرالر آزادانہ طور پر آکر اس سمندری حدود میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں جس سے لوکل مچھیرے مالی لحاظ سے تباہ ہوگئے ہیں اسی طرح گوادر کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ جو بھی حکومت آئی اس نے صرف اخباری بیانات اور فوٹو سیشن کے ذریعے ہی گوادر کی ترقی و خوشحالی دکھائی عملی طور پر کچھ نہیں کیا انہوں نے کہاکہ گوادر کی ترقی و خوشحالی اور سی پیک کی کامیابی کے لئے موجودہ حکومتوں کو پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے میری یہ تجویز ہے کہ دبئی کی طرز پر گوادر کے مغربی اور مشرقی اطراف پر پانی کے دو پلانٹس لگائے جائیں گوادر میں 400بیڈز پر مشتمل جدید ہسپتال بنایا جائے ایرانی بارڈر کیچ کور، تربت مند بلو، پنجگور پروم ماشکیل زیرو پوائنٹ اور تفتان میں کسٹم کے گیٹ قائم کرکے ریونیو اکٹھا کیا جائے ان سرحدوں پر امپورٹ ایکسپورٹ سے جو بھی اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو وہ گوادر کی ترقی و خوشحالی اور عوام کے بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی پر خرچ کئے جائیں اس سے نہ صرف عوام خوشحال ہونگے بلکہ سی پیک جو کہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کی بحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کی کامیابی میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں