ملک خانہ جنگی کے دہانے پر
تحریر: انورساجدی
مجھے پہلی مرتبہ یقین ہو چلا ہے کہ عمران خان کے دست راست شیخ رشید خانہ جنگی کی جو پیشنگوئی کر رہے ہیں جو سچ ثابت ہو گا اور خود عمران خان نے ہمیشہ اتنا جھوٹ بولا ہے اس مرتبہ اس کا یہ کہنا سچ ہے کہ وہ اپنے نکالے جانے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت لانے کے خلاف وہ کچھ کریں گے کہ کسی نے اس کا تصور تک نہیں کیا ہو گا دو رات قبل مدینہ منورہ میں روضہ نبی ؐ کے اندر جس طرح تحریک انصاف کا اہل یوتھ حملہ آور ہوا گویا یہ ایک ٹریلر ہے کپتان کے دوست سابق مشیر صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو کی قیادت میں تحریکی جھتہ اس وقت نمودار ہوا جب نوابزادہ شاہ زین بگٹی، مریم اورنگزیب اور دیگر حکومتی شخصیات حاضری دے رہے تھے اور یہ جھتہ خاتون وزیر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ شاہ زین نے انہیں روکا مریم پر اگرچہ آنچ نہ آئی لیکن جھتے نے شازین کے دراز گھیسو پکڑے اور انہیں دوچار ہاتھ بھی رسید کر دیئے تحریک انصاف کے کارکن اور رہنماء اس عمل پر بہت خوش ہیں لیکن وہ یہ پہلو بھول گئے کہ شاہ زین نے خاتون کی طرف بڑھنے والے ہاتھ روک دیئے۔
ایک غلطی سعودی حکومت سے بھی ہوئی تھی کہ اس نے سیکورٹی کے اچھے انتظامات نہیں کئے تھے شائد ان کے وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ کوئی مسلمان دربار نبی ؐ کے اندر ایسا کچھ کر سکتا ہے خاص طور پر ایک ایسے لیڈر کی طرف سے جو صبح و شام ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتا ہے اس کے کارکن مدینہ کے اندر اور روضہ رسول ؐ میں کسی ایسی گستاخی کا ارتکاب کریں گے اس سے عمران خان کا نعرہ زمین بوس ہو گیا ہے موصوف نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد تقریباً روزانہ اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر خانہ جنگی شروع کروائیں گے تین روز قبل انہوں نے اپنے ایک منحرف ایم این اے نور عالم خان کو کھلی دھمکی لگاتے ہوئے کہا کہ جس دن وہ اپنے گھر گئے اس دن اس کا برا حشر ہوگا انہوں نے بارہا کہا ہے کہ پارٹی کارکن غداروں کے گھروں کا گھیراؤ کریں ان کا سوشل بائیکاٹ کریں ان کے بچوں کی شادیاں نہ ہونے دیں اور ان پر زندگی تنگ کریں۔
عمران خان تے اپنی جگہ راولپنڈی کے 75 سالہ بزرگ شیخ رشید اپنی یک رکنی پارٹی کے ساتھ دو دو ہاتھ آگے ہیں وہ اس خوش فہمی میں ہے کہ فوج مداخلت کر کے 31 مئی سے پہلے عام انتخابات کروا دے گی اتنا سینئر بندہ اس بات سے بے خبر ہے کہ ایک ماہ میں عام انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے بلکہ پورے ایک سال کے اندر انتخابات نہیں ہو سکتے عمران خان نے پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو حکم دیا کہ وہ نگر نگر، گاؤں گاؤں پھیل کر موجودہ حکومت کے خلاف تبلیغ کریں تاکہ جب وہ 20لاکھ لوگوں کو اسلام آباد آنے کی کال دیں تو کوئی کمی نہ رہ جائے انہوں نے کہا کہ وہ الیکشن کے اعلان تک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔
عمران خان اور ساتھیوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ ان کا پکا ارادہ ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں وہ ہر قیمت پر انتخابات چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے حکومت اور فوج دونوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں امکانی طور پر وہ عید کے بعد شدید گرمی میں اسلام آباد کا رخ کریں گے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے ہزاروں یا لاکھوں کارکن اسلام آباد کا رخ کریں گے یہ واقعی میں حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا اور حکومت لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے میں ناکام رہی تو حکومت کو مجبوراً مذاکرات کرنا پڑیں گے اور جب مذاکرات ہونگے تو عمران خان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا یقینی طور پر حکومت وقت مانگے گی کیونکہ فوری طور پر الیکشن نہیں ہو سکتے لیکن اقتدار سے زیادہ دوری عمران خان سے برداشت نہیں ہوگی جس کے نتیجے میں مذاکرات ناکام ہونگے اور ڈی چوک یا فیض آباد پر ایک تباہ کن دھرنا دیکھنے میں آئیگا یہ بات بعد از امکان نہیں کہ حکومت صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے ”بڑوں“ سے مدد طلب کرے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہل یوتھ ہر جگہ ہر ادارہ اور ہر مقام پر سرایت کر چکے ہین اس لئے راولپنڈی کیلئے بھی اس صورتحال کو ہینڈل کرنا مشکل ہو جائیگا سردست تو یہ نظر آتا ہے کہ عمران خان کے خلاف طاقت کا استعمال خطرناک ثابت ہوگا کیونکہ ان کے کارکن بھپرے ہوئے ہیں اور وہ خود بھی آپے سے باہر ہیں سوچنے کی بات ہے کہ اگر وہ مکہ مدینہ کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں تو اور کیا کچھ نہیں کر سکتے وہ ہر انتہاء تک جائیں گے ہر خطرہ مول لیں گے البتہ یہ بات طے ہے کہ نازوں میں پلا کپتان کیلئے جیل گزارنا مشکل ہے۔
پاکستان خانہ جنگی کے دہانے پر اس لئے پہنچ چکا ہے کہ جگہ جگہ لڑائیاں ہو رہی ہیں ایک طرف جہانگیر چکو نے مقامات مقدسہ کا تقدس پامال کیا تو دوسری جانب اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سحری کے وقت چند مخالفین نے متنازعہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر ہلہ بول دیا اور ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی لیکن واقعہ کے بعد وہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی بہادری کا قصہ بیان فرما رہے تھے یعنی عزت اور بے عزتی اس عجیب مخلوق کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہے یہ بات تو سبھی کو ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے 2011ء کے بعد ایسی مخلوق تشکیل دی ہے جو کوئی دلیل منطق اور مخالفانہ بات سننے کی روادار نہیں ہے یہ حسن بن سبا کے فدائی لشکر کی طرح اپنے لیڈر کی ہر بات اور ہر حکم کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ مخالفین کو چور ڈاکو تو کہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ انسان نہیں شیطان ہیں اس لئے انہیں گالی دینا اور ان پر حملے کرنا بھی جائز ہے عمران خان کا جنونی کلٹ اپنے لیڈر کی کرپشن توشہ خانہ کی لوٹ مار راولپنڈی رنگ روڈ کے اسکینڈل، فرح گوکی کے دن دیہاڑے ڈاکہ ملک ریاض کی طرف سے رشوت میں دی گئی 2ارب روپے کی زمین اور نام نہاد عبدالقادر روحانی یونیورسٹی کیلئے ہتھیائی گئی دو سو کنال کی زمین کے سکینڈل پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔
ایک کتاب میں لکھا تھا کہ جب حسن بن سبا نے جو فدائی لشکر تیار کیا تھا وہ ہر روز ان سے خطاب کرتا تھا اور نئے احکامات جاری کرتا تھا اس نے بھی ریاست مدینہ کے نعرہ کی طرح اپنی جعلی جنت کا نعرہ لگایا تھا کافی چیزیں ملتی جلتی ہیں یہ جو عفریت ہے اسے کنٹرول کرنا اکیلے حکومت کا کام نہیں بلکہ جن عناصر نے انہیں بنانے اور حکومت میں لانے کی غلطی کی تھی یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اس خلائی مخلوق کا سدباب کریں۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو فی الحال یہ ایک کمزور حکومت ہے اسے بہت بڑے چیلنج درپیش ہیں خاص طور پر اپنے معیشت کو چلانے کیلئے اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں وہ ان مسائل سے نمٹے یا عمرانی عفریت کا مقابلہ کرے بہر حال پہلے قدم کے طور پر نیب نے فرح گوگکی کے خلاف 84 کرور روپے کا کیس قائم کر دیا ہے ہو سکتا ہے کہ اس نے جو مزید لوٹ مار کی ہے ان کیخلاف اور مقدمات بھی جلد سامنے آئیں توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت کا مقدمہ بھی بنتا ہے جبکہ حکومت نے گزشتہ روز یہ شوشہ چھوڑا کہ وہ صدر علوی سابق وزیراعظم عمران خان اور قاسم سوری پر آئین شکنی کا مقدمہ قائم کرے گی اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی رائے لی جا رہی ہے لیکن اس سے قبل بڑی خونریزی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عمران خان نے پورا ملک تقسیم کر دیا ہے لوگ ہر جگہ منقسم ہیں حتیٰ کہ سابق عسکری اہل کار بھی عمران خان کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں نہ جانے اب کس کس نازک مقام پر اس کی حمایت موجود ہوگی۔
صورحال اتنی حساس اور خطرناک ہے کہ کوئی انہونی اور بڑا واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے ایسا واقعہ کہ جس کے بارے میں کسی نے سوچا نہ ہوگا کتپان وہ شخص ہے کہ وہ خونریزی، خانہ جنگی اور انارکی سے نہیں گھبراتے بس ان کی کمزوری جیل ہے جو وہ برداشت نہیں کر سکتے اگر یہ حکومت اسے بھی جیل لے جانے میں کامیاب ہوئی تو اس کی آدھی سیاست ختم ہو جائیگی یا انہیں کسی تاریک زندان میں ناموافق صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو موصوف ایک اور خان قیوم ثابت ہونگے خان عبدالقیوم خان اور خان عمران خان میں کافی قدریں مشترکہ ہیں اور ان کا انجام بھی مشترک ہوگا۔