پرائیویٹ اور الیکڑانک میڈیا

عظمت اللہ جانی

اگرحقیقت کو دیکھا جاۓ تو پرائیویٹ چینلز نےغریب عوام کی آواز بغیر کسی لالچ کی اٹھائی ہےاور ان کیلئے کار آمد ثابت ہوۓ ہیں ۔جہاں تک بات رہی پریس میڈیا کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا نے ماسوائے حکمرانوں کے جوتوں کی پالش اور بلیک میلنگ کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا ہے۔ان لوگوں نے پریس کلبوں پے قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنے اپکو بہت اعلی سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں اور نئے آنے والے صحافیوں کیلئے ایسے شرائط رکھتے ہیں کہ وہ اس اسکو پورا نہیں کر سکتے اور یوں وہ اپنے لئے راہ ہموار کرتے ہیں ۔یہ میٹرک صحافی سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں ۔ عوام تک پہنچنے کا۔ دوسری جانب پولیس اور علاقے کے بڑے دکان دار اپنے سامان کی تشہیر کے لئے انہیں چند سو روپے دے دیتے ہیں ۔ جس سے ان کی دکانداری چل جاتی ہے۔ اور انکو یہ تشہیر فیس بک تک ہی محدد رہتا ہے۔
آج کل صحافت میں حسد بہت زیادہ ہے مگر ان کنویں کے مینڈکوں میں جو بغض کینہ اور حسد پایا جاتا ہے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بھی سرگرم عمل ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا دکان بند کرنے کی یہ بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی پریس کلبوں میں بھی پارٹی بازیاں ہوتی ہیں ایک دوسرے کا گریباں تک ہاتھ ڈالتے ہیں۔ یہ لوگ پولیس اور دیگر جرائم پیش حضرات سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور یوں وہ راتوں رات مالدار ہو جاتے ہیں انکی ایکٹنگ نانہ پٹیکر سے کم نہیں اپنی صحافت کابے جا استعمال کرتےہیں یا اسکو طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں حال ہی میں جمرود میں اسطر ح ایک واقع رونما ہوا تھا جہاں پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے صحافی کودو تین تھپر راسید کرنا پڑیں اور یو وہ جیل بھیج دیا گیا جہاں پر دونوں کے درمیان صلح ہو ا ۔تو اعلی حکام سے اپیل کی جاتی ہے کہ انکے خلاف ایکشن لیا جاۓ ۔بغیر ڈگری ہولڈر صحافیوں کو ختم کیا جاۓ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاۓ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں