بلی تھیلے سے باہر آنے لگی

تحریر:عزیز لاسی
ایک جانب کرونا کا زور تو دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ کا عروج اب نہ صرف کورونا پریشان ہے کہ وہ کیسی قوم میں آکر پھنسا ہے کہ اُسکے خوف سے دنیا کا نپ رہی ہے لیکن ایک پاکستانی ہیں کہ وہ اِسے بھی انجوائے کر کے شکست دینے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ملک کے سیاسی حالات میں ایک بار پھر سے ہلچل ہے نیب نے چوہدری برادران کے 19سالہ پُرانے کیسز کی صرف ایک پوٹلی کھول کر (ق) لیگ کی دم پر لات رکھ دی ہے تو اُدھر (ن) لیگ نے 18ویں ترمیم میں کسی بھی تبدیلی کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے پیپلزپارٹی اوربلاول بھٹو زرداری پہلے ہی 18ویں ترمیم میں کسی بھی تبدیلی کے خلاف اعلان جنگ کر چکے ہیں تاہم بلوچستان عوامی پارٹی اب تک خاموش ہے اسکے پیچھے کیا راز ہے یہ تو BAPکے اکابرین ہی جانتے ہونگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کی بیساکھیاں بنے ہوئے ہیں اور یہ بھی حقیقت کے قریب بات لگ رہی ہے کہ 18ویں ترمیم کے حوالے سے اب بلی آہستہ آہستہ تھلے سے باہر آنے لگی ہے اب دیکھتے ہیں کہ چوہے بلی کے کھیل کا انجام کیا ہوتا ہے؟ کیا چوہا لنڈوراہی بھلا یا پھر۔۔۔۔!
ادھر کرکٹ ہیرو لالہ شاہد آفریدی نے گزشتہ دنوں بلوچستان کا دورہ کرتے ہوئے واپسی پر بیلہ کے نواحی علاقہ یونین کونسل کنر ویلپٹ کے ایک گاؤں میں دوران سفر بریک کر کے لوگوں اور بچوں میں امدادی سامان اور رقوم تقسیم کرنے کا جو سین سوشل میڈیا پر وائرکیا اُس نے ہمارے تخت نشینوں کی کارکردگی اور اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کا پول کھول کر رکھ دیا لالے نے صرف اس بات پر ہی اکتفادہ نہیں کیا بلکہ کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی حسین وادیوں معدنی خزانوں اور رب پاک کی دی ہوئی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی غربت اور پسماندگی کا ذمہ دار یہاں کے حکمرانوں کو قرار دیا انھوں نے کہاکہ جب وہ کراچی سے بلوچستان میں داخل ہوئے تو انہیں یہ علاقہ امریکی ریاستوں ٹیکساس اور فلوریڈا سے بھی زیادہ خوبصورت لگا شاید ماسوائے خون آلود کوئٹہ چمن کراچی قومی شاہراہ کے جہاں پر ہر قدم پر حادثات میں تباہ شدہ گاڑیوں کے ڈھانچے آفریدی صاحب کو نظر آئے ہونگے کیونکہ امریکہ کی سڑکوں کے کنارے نہ تو اس قسم کے ڈھانچے نظر آئے ہونگے اور نہ ہی ہر قدم پر قائم سرکاری محکموں کی بنی چیک پوسٹوں پر ایرانی ڈیزل غیر ملکی چھالیہ بردار گاڑیوں کو روک کر پیسے بٹورنے کے نظارے دیکھے ہونگے اس بات پر آفریدی بھی حیران ہو سکتے ہیں کہ کرکٹ میچ فکسنگ میں کئی کرکٹر کروڑ ارب پتی بن گئے لیکن آخر میں سب اسکینڈل سامنے آجاتے ہیں لیکن بلوچستان میں چیک پوسٹ نیلامی کی فکسنگ میں ریٹائرڈ منٹ کے بعد کل کے کنگلے آج کے حاجی صاحب اور زمیندار اور انگریزی میں بزنس مین کہلاتے ہیں کیسا لگا لالے ہمارا بلوچستان پھر کبھی آنا ضرور۔۔۔!اور لالہ وعدہ کر گیا ہے کہ وہ پھر بلوچستان ضرور آئے گا اب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ 23دنوں میں آتے ہیں یا پھر 23سال بعد کوئٹہ ائیر پورٹ پر کوئی اُنکا استقبال کرنے جاتا ہے؟ کیونکہ بلوچستان کی غربت کے بارے میں انکے جذبات اور جوش خطابت اچھے اور نیک تھے ویسے شاہد آفریدی لسبیلہ اس سے قبل بھی متعدد بار تبلیغی جماعت کے ہمراہ آچکے ہیں
آچکا ہے تھر تھلا لسبیلہ پولیس میں ایک بار پھر 10پولیس اہلکار،3اسسٹنٹ سب انسپکٹر ز،4حوالداروں اور 3سپاہیوں کو لیکر جنہیں فوری طور پر لائن حاضر کر کے اُن پر رشوت ستانی کے الزامات کے تحت شوکاز نوٹس جاری کئے گئے بیلہ اوتھل،ساکران،وندر اور گڈانی تھانہ جات کے اہلکاروں پر الزام ہے کہ انھوں نے چیک پوسٹوں سے ممنوعہ سامان کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر سے رشوت خوری کے مراسم ہیں اور ایک عجیب بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ شوکاز نوٹس دینے کے بعد ملازمین کو جواب دینے کی 7دنوں کی مہلت دی گئی ہے لیکن تمام ملازمین کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ابھی اور فوراً جواب داخل کرائیں اور پھر یہ بات بھی غالب ہے کہ جواب بھی شوکاز نوٹس جاری کرنے والوں نے اپنی مرضی کا لکھوا کر لیا گیاہوگا ان 10پولیس اہلکاروں کے بارے میں ہمارے ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ شوکازنوٹس میں چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں پر رشوت خوری کا الزام ہے لیکن ان 10اہلکاروں میں ایسے اہلکار بھی شامل ہیں کہ انکی تعیناتی چیک پوسٹوں پر تھی ہی نہیں اور آئی جی پولیس کے جاری مراسلے کا جوذکر کیا گیا ہے اُس میں تاریخ1-5-2020درج ہے اور ان میں سے کئی ملازم تھانوں میں اور قیدی وین ڈیوٹی پر مامور تھے ان تمام حالات وواقعات کی روشنی میں جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ یہ شوکاز نوٹس انتہائی عجلت میں محض خانہ پُری کرنے کیلئے جاری کئے گئے ہیں یا پھر ٹیکنیکل طریقے سے کسی پستہ قدنے انتقامی کاروائی کیلئے اپنی ذہانت کا استعمال کیاہے جس سے بلی تھیلے سے باہر آسکتی ہے بلکہ آگئی ہے اور یہ اقدام گزشتہ دنوں ایک معروف ٹی وی اینکر رانا مبشر کے لسبیلہ پولیس کے حوالے سے کئے گئے انکشافات کی روشنی میں حقائق کا حامل لگتا ہے رانا مبشر کے پروگرام کے بعد بھی لسبیلہ کے راستے سے کابلی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اس اسمگلنگ تو جاری ہے لیکن رانا مبشر نے جو اسکرپٹ پڑھا تھا اب اُسی کے الفاظوں میں ہیر پھیر کر کے لین دین کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے بہرحال۔۔۔۔! سلسلہ چل رہا ہے کرونا سے روڈ ویران ہے یہ ایک بہانہ ہے
خبر آئی ہے کہ ملک میں جعلی صحافیوں اور ویب چینلز اور وٹس اپ گروپوں پر وائس ریکارڈنگ اور خبریں جاری کر کے حکومتی اداروں کو بدنام کرنے اور افسران و لوگوں کو بلیک میل کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسی طرح کا ایک خط حب انتظامیہ کو بھی موصول ہوا ہے جس میں اس قسم کے حضرات کا سرکاری دفاتر میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اسی طرح سے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ایک ویب سائیٹ پر حب شہر میں آفتاب چوک کے قریب اسمگلنگ شدہ چھالیہ سے بھری ویگو گاڑی کی ٹکر سے رکشہ میں سوار ایک خاتون کی ہلاکت اور 3.افراد کے زخمی ہونے کی کہانی کے حوالے سے ایک فرضی آئی ڈی سے جو حب پولیس اور اسکے شامل حال کے بارے میں جو کہانی بریک کی گئی اسکے بعد PTVپر پرانے زمانے میں اکثریہ الفاظ دہرائے جاتے تھے کہ فنی خرابی اور موسم ناموافق ہونے کی وجہ سے ناظرین سے ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا تھا جس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں کی سی صورتحال پیدا ہوئی ہے ایسی ہی صورتحال چند روز قبل حب میں چھالیہ سے بھرے ایک ڈمپر کے پکڑے جانے اور 7بوری چھالیہ کا انعام اوررمضان پیکج وعید آپریشن کا فیصلہ بھی جھالاوان کی ایک اہم شخصیت نے کرایا۔۔۔ یہ حال ہے
لیکن لگتا ہے کہ ان حالات سے بے خبر تو لسبیلہ کے ضلعی پولیس آفیسر بھی نہیں ہونگے لیکن پھر یہ درویشی کیسی کہ اپنے پیش رو کی طرح آجکل خود کو صرف اپنے بنگلے تک محدود کررکھا ہے یا ہو سکتا ہے کہ اِس بدبخت کرونا کی وجہ سے از خود قرنطینہ میں خود کو لے گئے ہوں بہر کیف سب کا اللہ بھلا کرے اور اللہ کرے ہمارے بھی سب آئینے بِک جائیں اندھوں کے دیس میں۔۔۔!
آگ لگانے والوں
کو کیا خبر !!
رُخ ہواؤں نے بدلا تو
خاک وہ بھی ہونگے!!

اپنا تبصرہ بھیجیں