چوری اور سینہ زوری
تحریر : انور ساجدی
الیکشن کمیشن نے عمران خان سے ڈر کر جو فیصلہ دیا ہے وہ تحریک انصاف کےلئے سزائے موت تو نہیں ہے لیکن اسے عمر قید کی سزا کہا جاسکتا ہے قانونی ماہرین کے مطابق ایسے راستے ہیں کہ تحریک انصاف اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرکے کافی مہلت یا مدت حاصل کرسکتی ہے قانون سے قطع نظر اخلاقی طور پر یہ بات سو فیصد ثابت ہوگئی ہے کہ دوسروں کو چور ڈاکو اور کرپٹ کہنے والے عمران خان خود اسی صف میں شامل ہوگئے ہیں مخالفین انہیں مہاچور اور بین الاقوامی ڈاکو کے لقب سے بھی یادکررہے ہیں اگرچہ تحریک انصاف کے پیروکار کسی بھی فیصلے کو جو ان کے لیڈر کے خلاف ہو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں لیکن حقیقت تو حقیقت ہے عمران خان لاکھ انکار کریں لیکن اس بات کو نہیں جھٹلاسکتے کہ انہوں نے سینکڑوں لوگوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ان لوگوں میں بھارتی اور یہودی بھی شامل ہیں امریکی بھی دو ہاتھ آگے ہیں لہٰذا کرپشن اور غلامی کے بارے میں ان کا بیانیہ دفن ہوگیا ہے اگر انہوں نے آئندہ بھی اپنے پارسا ہونے اور صادق اور امین ہونے پر اصرار کیا تو اسے چوری اور سینہ زوری کہا جاسکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ اور فارن فنڈنگ کیس نے ثابت کردیا ہے کہ عمران خان کے اخلاقی معیارات زیرو ہیںانہوں نے دنیا بھر سے شوکت خانم کے نام پر فنڈز اکٹھے کئے لیکن انہیں پارٹی کے اکاﺅنٹس میں منتقل کرکے شدید بددیانتی کا مرتکب ہوئے۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کے پھسے پھسے فیصلے کا تعلق ہے تو یہ ضابطہ تحریر کے حکم کی تعمیل لگتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو کچھ عرصہ تک زندہ رکھنا مقصود ہے ورنہ الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر نہ صرف تحریک انصاف پر پابندی عائد کرسکتا ہے بلکہ عمران خان اور اراکین اسمبلی کو تاحیات نااہل قرار دے سکتا ہے لیکن اس نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا اس سے معاملہ کو طول دینا مقصود ہے تاکہ عمران خان اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرسکیں یا اس مقدمے کو سرے سے اڑا کر ختم کروادیں۔
دیکھا جائے تو نواز شریف کو جس جرم پر سزا سنائی گئی وہ عمران خان کے سنگین جرائم کے مقابلہ میں بہت معمولی دکھائی دیتا ہے اپنے بیٹے کی کمپنی سے 10 ہزاردرہم تنخواہ وہ بھی انہوں نے وصول نہیں کی اس کے باوجود انہیں سزا سنائی گئی زرداری نے 11 سال قید کی سزا بھگتی لیکن آج تک ان پر کوئی بھی کیس ثابت نہیں ہوسکا عمران خان پر ہاتھ ہلکا رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف انوکھے لاڈلے ہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے لاڈلے ہیں وہ 2014 ءسے تمام سیاسی جماعتوں اور ملکی اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ان کے احتساب سے سارے ادارے ڈرتے ہیںبڑے بڑے ادارے اور شخصیات ان سے خوفزدہ ہیں حالانکہ وہ ایک مجرم ہیں جب ریاست کمربستہ ہوجائے تو بھٹو جیسے شخص کو بھی پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے اور نوازشریف کو بھی ایک منٹ میں نذر زندان کیا جاسکتا ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی کو 30 سیکنڈ قید کی سزا دے کر انہیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا جاسکتا ہے لیکن عمران خان کا معاملہ مختلف ہے وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو جانبدارانہ قرار دے رہے ہیں اور اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
اس انکار کا مقصد اپنے دیوانوں فرزانوں اور یوتھیاز کے حوصلے بلند رکھنے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل ایک نیا بیانیہ بنارہے تھے ان کی سوشل میڈیا ٹیم کافی دنوں سے اس کی تیاری کررہی تھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے فوری طور پر سوشل میڈیا ٹیم نے اعلان کیا کہ تحریک انصاف پر کیس ثابت نہیں ہوسکاحالانکہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے متعدد اکاﺅنٹ چھپائے اور درجن بھر اکاﺅنٹس سے رقومات تحریک انصاف کو منتقل ہوئیں لیکن تحریک انصاف ان سے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے تحریک انصاف کی صفوں میں چاروں طرف ”میں نہ مانوں“ کی بلند آوازیں سنائی دے رہی ہیں شیخ رشید سے لیکر فواد چوہدری تک سب کہہ رہے ہیں کہ خطرے والی کوئی بات نہیں جو معاملہ ہے اسے مینج کیاجاسکتا ہے کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ آپ کے صادق اور امین کے چہرے میں بددیانتی خردبرد اور کرپشن کی جو کالک لگ گئی ہے وہ کیسے دور ہوگی ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے عمران خان اپنے کارکنوں اور مداحوں کو مطمئن رکھ سکتے ہیں جس سے ان کے ووٹ بینک پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔لیکن آخر کار تحریک انصاف کا جھوٹ دم توڑ چکا اور سچ کو ماننا پڑے گا۔
پاکستانی سیاست میں بدعنوانی ایک دیرینہ مسئلہ ہے اگرچہ اس کی بنیاد ایوب خان نے ڈالی تھی لیکن ضیاﺅالحق نے اسے بام عروج پر پہنچایا نواز شریف کے ادوار میں جو کچھ ہوا اسے ضیاﺅالحق کا تسلسل کہا جاسکتا ہے لیکن عمران خان نے جو کچھ کیا وہ تکنیکی اعتبار سے کمال کی فنکاری تھی پہلے ملک ملک شہر شہر گھوم کر شوکت خانم کےلئے زکوٰة چندہ اور امداد حاصل کی گئی لیکن رفتہ رفتہ دونوں کو غلط خلط کردیا یعنی چندہ شوکت خاتم کے نام اکٹھا کیا گیا لیکن اسے پارٹی نے ہڑپ لیا یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف 2014ءکے بعد امیر ترین جماعت بن گئی 2018ءکے انتخابات سے لیکر حالیہ ضمنی انتخابات تک عمران خان نے جو ایک درجن جلسے کئے ان میں ایک کے سوا باقی تمام مقامات پر وہ خصوصی طیارے کے ذریعے گئے ماضی میں نواز شریف اور زرداری پر ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال پر مقدمات قائم ہوئے لیکن عمران خان نے کے پی کے سرکاری ہیلی کاپٹر کو رکشے کی طرح استعمال کیا وہ وزارت عظمیٰ کی آخری رات بھی بنی گالہ تک سرکاری ہیلی کاپٹر میں گئے لیکن آج تک ان پر اس سلسلے میں کوئی مقدمہ نہیں بنا ۔
تحریک انصاف کے لیڈر روز شیخی بگھارتے ہیں کہ عمران خان کا سب کچھ پاکستان میں ہے یہاں پر ان کا کوئی کاروبار نہیں ہے اس لئے وہ صاف ستھرے اور آب زمزم سے دھلے ہوئے ہیں لیکن چوری کا عقدہ کھلا ہے تو سارے لیڈروں کو شرم آرہی ہے اگر کسی کو مفت میں اربوں کھربوں ملیں تو انہیں کاروبار کرنے کی کیا ضرورت ہے چوری منی لانڈرنگ اور چندہ خوری سے بڑا کاروبار اور کیا ہوسکتا ہے آج نہ سہی کل ضرور لوگ شوکت خاتم کو زکوٰة خیرات اور عطیات دینے سے ہاتھ کھینچ لیں گے کیونکہ ان پر اپنے فلاحی ادارہ کے اربوں روپے کھانے کا الزام ہے اس سے پہلے کہ شوکت خاتم پر کوئی اثر پڑے عمران خان اسے ایک ٹرسٹ بناکر اس کے حوالے کریں اور اپنے سائے کو بھی اس سے دور رکھے تاکہ یہ اسپتال جو اب تین ہوچکے ہیں اپنی آمدنی سے چل سکے ابھی تو شروعات ہے آئندہ چل کر بڑے ہوشربااسکینڈل سامنے آئیں گے اور دنیا کو پتہ چلے گا کہ تحریک انصاف کو کہاں کہاں سے امداد ملی اور فنڈنگ ہوئی لطف کی بات یہ ہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بھی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو کے لقب سے یاد کررہے ہیں اس ڈھٹائی اور سینہ زوری کو داد دینی چاہئے دیکھیںعمران خان الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس کا کیا جواب دیتے ہیں یہ بات یقینی ہے کہ تحریک انصاف کے اربوں روپے ضبط ہوجائیں گے جس کے بعد عمران خان بدنامی کی وجہ سے کبھی اتنی رقم اکٹھی نہیں کرپائیں گے اس کے علاوہ اپنے جرائم کی صفائی میں وہ ساری عمر لگادیں گے عمر قید دراصل اسی کو کہتے ہیں۔